
مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر:Aqs-2083
تاریخ اجراء:29ذو القعدۃ الحرام 1442ھ/10 جولائی2021ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیافرماتے ہیں
علمائے دین ومفتیانِ شرعِ متین اس مسئلے کے بارے میں کہ میں
ایک کمپنی میں کام
کرتا ہوں ۔ وہاں ایک شخص کمپنی کو
گوشت سپلائی کرتا ہے ۔ اس سے میری
دعا و سلام ہوئی ، تو اس نے مجھ
سے کہا کہ میں پورا مہینا کمپنی کو گوشت سپلائی کرتا ہوں ، جس کا بِل کمپنی ساتھ ساتھ دیتی رہتی ہے ، لیکن
پیمنٹ مہینے بعد
ملتی ہے ، جس وجہ سے وہ
مجھ سے اس طرح کا ایگریمنٹ
کرنا چاہتا ہے کہ کمپنی
سے وہ بِل لے کر مجھے دے دیا کرے
گا اور جتنی رقم بنتی ہوگی ، میں اُس کو اپنی طرف سے دے دیا کروں
گا اور پھر مہینے بعد جب کمپنی
کی طرف سے اس کو پیمنٹ ملے گی ، تو جتنی
رقم مجھ سے لی ہوگی،
وہ بھی مجھے واپس کرے گا
اور ساتھ جتنا گوشت سپلائی کیا ہوگا ، فی
کلو کے حساب سے دس روپے مزید
مجھے دے گا ۔ شرعی
رہنمائی فرما دیں
کہ یہ طریقہ درست ہے یا نہیں ؟
بِسْمِ اللہِ
الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
پوچھی
گئی صورت میں بیان کردہ طریقہ خالص سود ہے ، لہٰذا آپ یہ
طریقہ نہیں اپنا سکتے ، کیونکہ آپ جو رقم اُس شخص کو
دیں گے ، اس کی شرعی حیثیت قرض والی ہے ، یعنی آپ
اُس شخص کو قرض کے طور پر رقم دیں گے اور قرض کا اصول یہ ہوتا
ہے کہ جتنی رقم قرض دی ہو ، اُتنی ہی واپس لی
جاتی ہے ۔ اس سے زیادہ
لینا طے کیا جائے ، تو یہ سود ہوتا ہے ،
جس کا لینا دینا
ناجائز و حرام ہے ۔
اللہ عز وجل قرآنِ مجید
میں سود کی حرمت سے متعلق ارشاد فرماتا ہے
: ﴿وَاَحَلَّ اللہُ الْبَیۡعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰوا﴾ ترجمۂ کنز الایمان : ” اور اللہ نے حلال کیا بیع کو اور حرام کیا سود کو ۔ “(پارہ
3 ، سورۃ البقرۃ ، آیت
275 )
قرض میں نفع لینے
سے متعلق سیدنا علی المرتضی
کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی علیہ و سلم نے فرمایا : ”کل قرض جر منفعۃ
فھو ربا“ ترجمہ : ہر وہ قرض جو نفع لائے ، وہ سود ہے ۔( نصب الرایہ
، جلد 4 ، صفحہ 60 ، مطبوعہ مؤسسۃ الریان ، بیروت )
صحیح
مسلم میں ہے : ’’ عن جابر رضی
اللہ تعالی عنہ قال لعن رسول اللہ صلی اللہ
علیہ و سلم اٰکلَ الربا و موکلَہ و کاتبَہ و شاھدیہ ‘‘ ترجمہ : سیدنا
جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ
صلی اللہ علیہ و سلم نے سود کھانے والے ، کھلانے والے
، سود لکھنے والے اور سود کے
گواہوں پر لعنت فرمائی ہے ۔ ( الصحیح
لمسلم ، کتاب البیوع ، باب الربا، جلد 2 ، صفحہ 27 ، مطبوعہ کراچی )
علامہ علاؤالدین حصکفی رحمۃ اللہ علیہ درمختارمیں
نقل فرماتے ہیں:’’کل قرض جر نفعا حرام‘‘ترجمہ:ہر وہ قرض جو نفع لائے ،حرام
ہے۔
اس کے تحت علامہ شامی علیہ الرحمۃ رد المحتارمیں
فرماتے ہیں :’’ای اذا
کان مشروطا ‘‘ترجمہ : یعنی جب وہ نفع قرض میں طے کیا جائے ، (تو حرام ہے
۔ )(ردالمحتارمع درمختار،کتاب البیوع،باب
المرابحۃوالتولیۃ،جلد7،ص413،مطبوعہ کوئٹہ )
سیدی اعلیٰ حضرت امام اہلسنت
مولانا الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ
الرحمٰن قرض میں طے کیے
گئے نفع سے متعلق فرماتے ہیں : ” قطعی سود اور یقینی
حرام و گناہِ کبیرہ و خبیث و مردار ہے ۔ “( فتاویٰ
رضویہ ، جلد 17 ، صفحہ
269 ، رضا فاؤنڈیشن ، لاھور
)
بہارِ شریعت میں ہے : ’’ قرض
دیا اور ٹھہرالیا کہ جتنا
دیا ہے اُس سے زیادہ لے گا جیسا کہ آج کل سود خواروں (سود کھانے والوں )کا قاعدہ ہے کہ روپیہ ، دو روپے سیکڑا ماہوار سود ٹھہرا لیتے ہیں ، یہ حرام ہے۔‘‘( بھارِ
شریعت ، حصہ 11 ، جلد 2 ، صفحہ 759 ، مکتبۃ المدینہ ،
کراچی )
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ
اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم