
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلے کےبارے میں کہ میری والدہ نے میری نا سمجھ نابالغہ بیٹی کو سونے کی چوڑی گفٹ کی اور میری زوجہ نے مجھے بتائے بغیر بیٹی کی طرف سے اس پر قبضہ کر لیا، مجھے نہیں بتایا، میں فی الحال کافی مشکلات میں گھِرا ہوا ہوں، مجھے جب یہ معلومات ملی،تو میں نے گھر والی کو کہا کہ یہ چوڑی مجھے دے دو، تا کہ میں اس سے فی الحال اپنا مسئلہ حل کر سکوں، تو اس نے کہا کہ یہ ہماری نابالغ بچی کی مِلک ہے، ہم اس کو استعما ل نہیں کرسکتے، برائے مہربانی جواب عنایت فرمائیں کہ وہ چوڑی میری بیٹی کی مِلک ہو چکی یا نہیں؟ اور کیا میں اس کو اپنے کام میں لا سکتا ہوں؟
جواب
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
بیان کردہ صورت میں وہ چوڑی آپ کی نابالغہ بیٹی کی مِلک نہیں ہوئی، بلکہ آپ کی والدہ ہی کی مِلک میں ہے، والدہ کی اجازت کے بغیر آپ اس چوڑی میں کوئی بھی ذاتی تصرف نہیں کر سکتے۔
مسئلہ کی تفصیل یہ ہے کہ کسی کو اپنی چیز کا بغیر عوض مالک بنانا،شرعی اصطلاح (Term) میں"ہبہ"(تحفہ، Gift) کہلاتا ہے اور ہبہ کے درست اور مکمل ہونے کی شرائط میں سے ایک شرط یہ بھی ہے کہ ہبہ کی جانے والی چیز موہوب لہ ( یعنی جس کو وہ چیز گفٹ کی ہے، اس) کے قبضے میں دیدی جائے، اگر واہب (گفٹ کرنے والے) نے موہوب لہ کو قبضہ نہیں دیا، تو ہبہ مکمل نہیں ہوگا، بلکہ موہوبہ چیز (یعنی جو چیز گفٹ کی جارہی ہے، وہ) دینے والے کی ملکیت پر باقی رہے گی اور اگر نا سمجھ، نابالغ بچے، بچی کو تحفہ دیا جائے اور دینے والا شخص بچے کا والد، وغیرہ سرپرست کے علاوہ کوئی اور ہو، تو بچے کے والد کے موجود ہونے کی صورت میں بچے کی طرف سے اسی کا قبضہ کرنا ضروری ہے، والد کی موجودگی میں اس کی اجازت کے بغیر بچوں کی والدہ یا کسی اَور کے قبضہ کر لینے سے ہبہ مکمل نہیں ہوگا (یاد رہے! یہاں والد کی موجودگی سے مراد موقع پر پاس ہونا نہیں، بلکہ غیبتِ غیر منقطعہ بھی حاضر ہونے کے تحت شامل ہو گی، یعنی اگرچہ فی الحال پاس موجود نہیں، لیکن یہ معلوم ہے کہ کہاں ہے، کب آئے گا)، لہٰذا پوچھی گئی صورت میں جب بچی کی طرف سے آپ کی اجازت کے بغیر آپ کی زوجہ نے سونے کی چوڑی پر قبضہ کیا، تو ہبہ مکمل نہ ہوا، بلکہ وہ چوڑی آپ کی والدہ کی ملکیت پر ہی باقی ہے،آپ کی والدہ اپنی سونے (Gold) کی چوڑی کے متعلق خود مختار ہیں، خواہ آپ کو دیں یا اپنے استعمال میں لے آئیں، والدہ کی ا جازت کے بغیر آپ اس چوڑی کو اپنے استعمال میں نہیں لا سکتے۔
ہبہ کی تعریف کے متعلق درمختار میں ہے:
’’تمليك العين مجانا أی بلا عوض‘‘
ترجمہ: بغیر عوض دوسرے کو کسی چیز کے عین کا مالک بنانا ( ہبہ کہلاتا ہے)۔ ( در مختار، کتاب الھبۃ، جلد 8، صفحہ 567، مطبوعہ کوئٹہ)
ہبہ درست ہونے کے لیے قبضہ ضروری ہونےکے متعلق حدیثِ پاک میں ہے کہ امّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہ تَعَالیٰ عَنْہَا بیان کرتی ہیں:
’’إن أبا بكر الصديق كان نحلها جاد عشرين وسقا من ماله بالغابة. فلما حضرته الوفاة، قال:واللہ يا بنية ما من الناس أحد أحب إلي غنى بعدي منك.ولا أعز علي فقرا بعدي منك. وإني كنت نحلتك جاد عشرين وسقا. فلو كنت جددتيه واحتزتيه كان لك . وإنما هو اليوم مال وارث. وإنما هما أخواك وأختاك، فاقتسموه على كتاب اللہ‘‘
ترجمہ: حضرت سیّدنا ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالیٰ عَنْہ نے غابہ کے مقام پران (یعنی حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہ تَعَالیٰ عَنْہَا) کو کھجوروں کے کچھ درخت ہبہ ( گفٹ ) کیے تھے، جن سے بیس وسق کھجوریں آتی تھیں، جب حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالیٰ عَنْہ کا وقتِ وصا ل آیا،تو آپ رَضِیَ اللہ تَعَالیٰ عَنْہ نے فرمایا: اے میری بیٹی! خدا کی قسم مجھے یہ پسند نہیں کہ میرے بعد کوئی اور تم سے زیادہ غنی ہو اور میرے بعد تمہارے علاوہ کسی کی تنگدستی مجھ پر گراں نہیں ہے، میں نے تمہیں کچھ درخت گفٹ کیے تھے۔ اگر ( اُس وقت ) تم نے ان پر قبضہ کر لیا ہوتا، تو وہ تمہارے ہو جاتے اور ( چونکہ اُس وقت تم نے قبضہ نہیں کیا، اس لیے اب وہ تمہاری ملک نہیں ہیں، بلکہ) آج وہ وراثت کا مال ہے، تمہارے دو بھائی اور دو بہنیں ہیں، لہٰذا تم لوگ اسے قرآنِ پاک (میں بیان کردہ وراثت کے قوانین) کے مطابق تقسیم کرلینا۔(موطا امام مالک، کتاب الاقضیۃ، باب مالایجوز من النحل، جلد 2، صفحہ 752، بیروت)
ہبہ کے تام و مکمل ہونے کےلیے قبضہ دینا شرط ہونے کے متعلق ملک العلماءعلامہ کاسانی حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:587ھ/1191ء) لکھتے ہیں:
”قال عامة العلماء شرط و الموهوب قبل القبض على ملك الواهب يتصرف فيه كيف شاء... (و لنا) إجماع الصحابة رضي اللہ عنهم و هو ما روينا أن سيدنا أبا بكر و سيدنا عمر رضي اللہ عنهما اعتبرا القسمة و القبض لجواز النحلى بحضرة الصحابة و لم ينقل أنه أنكر عليهما منكر فيكون إجماعا وروي عن سيدنا أبي بكر و سيدنا عمر و سيدنا عثمان و سيدنا علي و ابن عباس رضي اللہ عنهم أنهم قالوا لا تجوز الهبة إلا مقبوضة محوزة و لم يرد عن غيرهم خلافه“
ترجمہ: اکثر علماء نے فرمایا کہ (ہبہ میں قبضہ) شرط ہےاور موہوبہ شے قبضہ سے پہلے، تحفہ دینے والے کی ملکیت پر باقی ہوتی ہے،و ہ جیسے چاہے اس میں تصرف کرسکتاہے، اور (اس مسئلہ میں) ہماری دلیل صحابہ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کا اجماع ہےاور وہ روایت یہ ہے کہ حضرت سیّدنا ابو بکر صدیق اور سیّدنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہ تَعَالیٰ عَنْہُمَا نے صحابہ کرام کی موجودگی میں تحفے کے جواز کے لیے قبضے اور تقسیم کار ی کو معتبر (یعنی ضرور ی ) مانا اور کسی بھی صحابی نے ان حضرات پر اعتراض نہیں کیا،تو یوں اجماع ہوگیا اور سیّدنا ابو بکر، سیّدنا عمر، سیّدنا عثمان، سیّدنا علی المرتضیٰ اور سیّدنا ابنِ عباس رَضِیَ اللہ عَنْہُم بیان فرماتے ہیں کہ موہوبہ چیز کو اپنی ملکیت سے جدا کیے بغیر اور قبضہ دئیے بغیر ہبہ جائز نہیں ہوگا اور اس معاملے میں دیگر صحابہ کرام میں سے کسی کااختلاف بھی وارد نہیں ہے۔ (بدائع الصنائع، کتاب الھبۃ، فصل فی شرائط الھبۃ، جلد 8، صفحہ 105، مطبوعہ کوئٹہ)
فتاویٰ عالمگیری میں ہے:
”لايثبت الملك للموهوب له إلا بالقبض هو المختار‘‘
ترجمہ: قبضہ کے بغیر موہوبہ چیز میں موہوب لہ کی مِلک ثابت نہیں ہوتی، یہی مختار ہے۔ (فتاویٰ عالمگیری، کتاب الھبۃ، جلد 4، صفحہ 378، مطبوعہ کوئٹہ)
نابالغ کی طرف سے اس کے ولی کا قبضہ کرنا ضروری ہے اور والد موجودہو،تو وہ ہی ولی ہے، چنانچہ مختصر للقدوری، ہدایہ، بنایہ، فتح القدیر، کنز الدقائق، تبیین الحقائق، بحرالرائق، در مختار و غیرہا کتبِ فقہ میں ہے،
و اللفظ للبحر :”(قوله وإن وهب له أجنبي يتم بقبض وليه)لأن للولي ولاية التصرف في ماله و قبضها منه أراد بالولي هنا واحدا من أربعة وهو الأب ووصيه والجد ووصيه على هذا الترتيب وأطلقه فشمل ما إذا كان في حجره أو لا ولا يجوز قبض غير هؤلاء الأربعة مع وجود واحد منهم سواء كان الصغير في عيال القابض أو لم يكن و سواء كان ذا رحم محرم أو أجنبيا“
ترجمہ: مصنف عَلَیْہِ الرَّحْمَۃ کا قول: ’’اگر نابالغ کو اجنبی نے کوئی چیز ہبہ کی، تو اس کے ولی کے قبضہ سے ہبہ مکمل ہوگا۔‘‘ یہ اس لیے کہ نابالغ کے مال میں ولی کو ہی تصرف کی اجازت ہے اور وہی اس کی طرف سے قبضہ کرے گا، یہاں ولی سے مراد چار افراد میں سے ایک ہے، یعنی باپ، باپ کا وصی، دادا اور دادا کا وصی، اسی ترتیب کے مطابق۔ اور مصنف عَلَیْہِ الرَّحْمَۃ نے ولی کو بغیر کسی قید کے ذکر کیا، تا کہ یہ دونوں صورتوں یعنی بچہ ولی کی پرورش میں ہو یا نہ ہو، کو شامل ہو جائے۔ جب تک ان چاروں میں سےکوئی ایک بھی موجود ہے، بچے کی طرف سے کسی اور کا قبضہ کرنا جائز اور کافی نہیں، خواہ قبضہ کرنے والے کی پرورش میں بچہ ہو یا نہ ہو، خواہ قبضہ کرنے والا (ماں وغیرہ) محرم رشتہ دار ہو یا کوئی اجنبی ہو(بہر صورت ان کا قبضہ کافی نہیں)۔ (البحر الرائق، کتاب الھبۃ، جلد 7، صفحہ 288، مطبوعہ دار الكتاب الاسلامی)
اعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سنّت الشاہ امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالیٰ عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1340 ھ/ 1921 ء) سے نواسی کی طرف سے نانی کے ہبہ پر قبضہ کرنے کے متعلق سوال ہوا،تو آپ رَحْمَۃُاللہ تَعَالیٰ عَلَیْہِ نے جواباً ارشاد فرمایا :”اگر نواسی اس کے قبضہ میں نہ ہو، تو باپ کے ہوتے نانی وغیرہ کسی کا قبضہ جائز نہیں۔“ (فتاویٰ رضویہ، جلد 19، صفحہ 340، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر: Fsd-9002
تاریخ اجراء: 15 محرم الحرام 1446 ھ/ 22 جولائی 2024 ء