
مجیب: مولانا محمد شفیق عطاری مدنی
فتوی نمبر: WAT-3791
تاریخ اجراء: 01 ذولقعدۃ الحرام 1446 ھ/ 29 اپریل 2025 ء
دار الافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
بخاری شریف میں حدیث پاک موجود ہے کہ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ و سلم پر ایک صحابی رضی اللہ عنہ کا کچھ قرض تھا، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے قرض ادا کیا، تو کچھ زیادہ دیا۔ اس حدیث پاک کی روشنی میں کچھ وضاحت فرما دیں، میں نے سنا ہے کہ آپ علیہ الصلوۃ و السلام نے جس سے قرض لیا اور واپسی میں اضافی رقم دینا طے نہیں کیا بلکہ اسے اپنی خوشی سے اوپر پیسے دے دیے، تو یہ سود نہیں، کیا واقعی ایسا ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
قرض واپس کرتے وقت مقروض اگر قرض سے زیادہ لوٹائے اور یہ زیادہ دینا عقد میں صراحۃ یا دلالۃ کسی طرح شرط نہ ہو، بلکہ مقروض بغیرکسی شرط کے صرف اپنی خوشی سے زیادہ دے، تو شرعاً یہ سود نہیں اور اس کا لینا، جائز و حلال ہے اور دینا، نہ صرف جائز ہے بلکہ سنت اور اچھے اخلاق میں سے ہے۔ لہذاحدیث پاک میں بھی یہی صورت مرادہے کہ قرض لیتے وقت زیادہ دینے کی کسی قسم کی شرط نہیں تھی۔ البتہ اگر زیادہ دینا صراحۃ یا دلالۃ (مثلا عرف کی وجہ سے یا انڈر اسٹوڈ ہونے کی وجہ سے) مشروط ہو، تو ناجائز و حرام اور سود ہے۔
اپنی طرف سے زیادہ دینا نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے قول و فعل سے ثابت ہے،چنانچہ صحیح بخاری میں ہے:
”عن جابر بن عبد الله قال:أتيت النبي صلی اللہ علیہ و سلم۔۔۔ و كان لي عليه دَين، فقضاني و زادني“
ترجمہ: حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، فرماتے ہیں: میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بارگاہ میں حاضر ہوا، میرا کچھ قرض نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کےذمے پر تھا، تو آپ نے میرا قرض لوٹایا اور مجھے ( میرے قرض سے) زیادہ دیا۔(صحیح البخاری، رقم الحدیث 443،ج 1،ص 96،دار طوق النجاۃ)
علامہ أحمد بن إسماعيل الكوراني الشافعي ثم الحنفي (المتوفى 893 ھ) اس کے تحت فرماتے ہیں:
"فإن قلت: قد جاء:"كل قرض جر نفعًا فهو ربا"؟ قلت: ذاك إذا شرط الزيادة؛ و أما إذا لم يشترط فهو من محاسن الأخلاق"
ترجمہ: اگر تم کہو: حدیث پاک میں آیا ہے کہ؛ ہر وہ قرض جو نفع کھینچے سود ہے؟ تو میں کہوں گا: یہ تب ہے کہ جب زیادتی کی شرط رکھی ہو، بہر حال جب زیادتی مشروط نہ ہو تو یہ حسن اخلاق میں سے ہے۔ (الکوثر الجاری إلى رياض أحاديث البخاري، ج 5، ص 85، دار إحياء التراث العربي، بيروت)
قرض واپس کرتے وقت زیادہ دینا، عقد میں کسی طرح شرط نہ ہو، تو شرعاً یہ سود نہیں اور اس کا لینا دینا جائز ہے، چنانچہ ذخیرہ برہانیہ میں ہے
”و اذا أرجح فی بدل القرض لو لم یکن الرجحان مشروطا فی القرض لا بأس بہ‘‘
ترجمہ: اگر کوئی قرض کے بدلے میں زیادہ دے اور یہ زیادہ دینا قرض میں مشروط نہ ہو تو اس میں حرج نہیں۔(الذخیرۃ البرھانیۃ، ج 11، ص 109، دار الکتب العلمیۃ، بیروت)
حاشیہ سندی علی ابن ماجہ اور مرقاة المفاتیح میں ہے، و النص للآخر:
’’من استقرض شيئا فرد أحسن أو أكثر منه من غير شرطه كان محسنا و يحل ذلك للمقرض۔۔۔ و ليس هو من قرض جر منفعة; لأن المنهي عنه ما كان مشروطا في عقد القرض‘‘
ترجمہ: جو کسی سے قرض لے اور واپسی میں اس سے بہتر یا زیادہ واپس کرے جبکہ اس کی پہلے سے شرط نہ ہو تو ایسا کرنے والا نیکی کرنے والا ہے اور قرض دینے والے کے لیے بھی یہ زیادتی لیناجائز ہے، یہ وہ قرض نہیں جو منفعت لایا کہ ممنوع وہ منفعت ہے جو قرض میں مشروط ہو۔(مرقاۃ المفاتیح، ج 5، ص 1954، مطبوعہ دار الفكر، بیروت)
بہار شریعت میں ہے: ’’واپسی قرض میں اُس چیز کی مثل دینی ہوگی ، جو لی ہے۔ نہ اُس سے بہتر، نہ کمتر ۔ ہاں اگر بہتر ادا کرتا ہے اور اس کی شرط نہ تھی ، تو جائز ہے، دائن (قرض دینے والا) اُس کولے سکتا ہے۔ یوہیں جتنا لیا ہے ادا کے وقت اُس سے زیادہ دیتا ہے مگر اس کی شرط نہ تھی ، یہ بھی جائز ہے۔‘‘(بھار شریعت، ج 2، حصہ 11، ص 759، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
اللہ پاک قرآنِ مجید میں سود کی حرمت سے متعلق ارشاد فرماتا ہے:
﴿ وَاَحَلَّ اللّٰہُ الْبَیْعَ وَ حَرَّمَ الرِّبٰوا﴾
ترجمۂ کنز الایمان: ”اور اللہ نے حلال کیا بیع کو اور حرام کیا سود کو۔“(پارہ 3، سورۃ البقرۃ، آیت 275)
قرض پر مشروط نفع سود ہے۔ چنانچہ حضرت علی المرتضی کرّم اللہ وجھہ الکریم سے روایت ہے کہ رسولُ اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا:
”کل قرض جرّ منفَعۃً فھو ربا“
ترجمہ: قرض سے جو نفع حاصل کیا جائے، وہ سود ہے۔(کنز العمال، ج 6، ص 238، الحدیث 15516، فصل فی لواحق كتاب الدَين، مطبوعہ مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت)
رد المحتار میں ہے:
”قولہ (کل قرض جر نفعا حرام) ای : اذا کان مشروطا“
ترجمہ : شارح رحمۃ اللہ علیہ کا قول : (ہر وہ قرض حرام ہے ، جو نفع لائے) یعنی جبکہ اس (نفع) کی شرط لگائی گئی ہو۔ (الدر المختار مع رد المحتار، ج 7، ص 412۔ 413، مطبوعہ کوئٹہ)
فتاوی رضویہ میں ہے "جبکہ زیادہ دینا نہ لفظاً موعود نہ عادۃً معہود، تو معنی ربا یقیناً مفقود خصوصاً جبکہ خود لفظوں میں نفی ربا کا ذکر موجود، بلکہ یہ صرف ایک نوع احسان و کرم و مروت ہے اور بیشک مستحب وثابت بہ سنت"(فتاوی رضویہ، جلد 17، صفحہ 320، رضا فاؤنڈیشن لاہور)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم