قرض خواہ کا انتقال ہونے پر قرض کے پیسوں کا حکم

قرض خواہ کا انتقال ہو جائے تو قرض کے پیسوں کا کیا کیا جائے؟

مجیب:ابوالفیضان مولانا عرفان احمد عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-3545

تاریخ اجراء: 04شعبان المعظم 1446ھ/03فروری2025ء

دارالافتاء اہلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

   زید  نے ایک لاکھ روپیہ کسی سے ادھار لیا تھا اور جس سےادھار  لیا تھا وہ بندہ فوت ہو گیا اور اس کے رشتہ داروں کو بھی یہ نہیں جانتا اور  جس سے قرض لیا تھا اس کی اپنی اولاد بھی  نہیں ہے ،اب زید یہ چاہتا ہے کہ اس رقم کو مسجد یا قبرستان میں لگا دے یا کسی فلاحی کام میں خرچ کرے،  تو کیا زید کا ایسا کرنا درست ہے؟یا زید پر میت کے ورثا کو تلاش کر کے رقم ان کے حوالے کرنا لازم ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   پوچھی گئی صورت  میں اولاً تو پوری کوشش کر کے ورثاکی معلومات لی جائے،انہیں تلاش کیا جائے ، فی زمانہ کسی شخص کوتلاش کرنا زیادہ مشکل نہیں،بہت سے ذرائع اپنائے جا سکتے ہیں،مثلاً:بعض اوقات انسان نے اپنے پاس حساب کتاب لکھ کررکھا ہوتا ہے،تو اس سے معلوم کرنا آسان ہوجاتا ہےکہ کس کا کتنا قرض ادا کرنا ہے، اِسی طرح مرحوم کا عموماًلین دین کن لوگوں سے ہوتاتھا،اُن کےذریعے معلومات لی جاسکتی ہے،الغرض حتی الامکان ورثاکو تلاش کرکے ان تک ہی پہنچایاجائے۔

   پھر بعد میں اگر واقعی پوری کوشش کے باوجودورثا کی معلومات نہیں ملتی اور آئندہ بھی ملنے کی امید نہ ہو،تو اب وہ رقم لقطہ کی طرح ہے ، لہذااسے قرض خواہ کی نیت سے کسی شرعی فقیر(یعنی  مستحقِ زکوۃ مسلمان )کودے دیں یاکسی اورنیک کام مثلامسجد،مدرسہ یاقبرستان وغیرہ کے لیے دے دیں ،پھراگرکبھی ورثاملیں اوروہ صدقہ پرراضی نہ ہوں تواپنے پاس سے ان کواتنی رقم دی جائے ۔

   تتبع اور تلاش کے باوجود بھی قرض خواہ نہ ملے اور آئندہ ملنے کی امید بھی نہ ہو،تو اُتنا مال اس کی طرف سے صدقہ کر دیا جائے ، جیسا کہ تنویرالابصارودرمختار میں ہے:(علیہ دیون ومظالم جھل اربابھا وایس)من علیہ ذالک (من معرفتھم فعلیہ التصدق بقدرھا من مالہ وان استغرقت جمیع مالہ) ھذا مذھب اصحابنا لانعلم بینھم خلافا کمن فی یدہ عروض لم یعلم مستحقیھا اعتباراً للدیون بالاعیان (و)متی فعل ذٰلک(سقط عنہ المطالبۃ)من اصحاب الدیون(فی العقبی)ترجمہ:کسی شخص پرقرض اور مظالم ( ظلم سے جمع شدہ مال) ہیں،جن کے مالکوں کاپتہ نہیں اور وہ مقروض ان مالکوں کی معرفت سے نا امید ہوچکا ہے،تو اس پر اس قرضہ کے برابر اپنے مال سے صدقہ کرنا ضروری ہے،اگرچہ اس کا سارا مال اس میں ختم ہوجائے، ہمارے ائمہ کا یہی مذہب ہے۔ ہمارے علم میں ان کا اس مسئلہ میں کوئی اختلاف نہیں۔ جیسے کسی شخص کے پاس ایسا سامان ہو جس کے مستحقین معلوم نہیں،قرضوں کو عین چیزوں پرقیاس کرتے ہوئےاور جب اس نے ایساکردیا یعنی صدقہ کردیاتو آخرت میں قرض خواہوں کی طرف سے اس پر سے مطالبہ ساقط ہوگیا۔( تنویر الابصار و الدرالمختار ، جلد6، صفحہ434 ، مطبوعہ :کوئٹہ )

   دَینِ اُجرت سے متعلق ایک سوال کے جواب میں امامِ اہلِ سنّت امام احمد رضا خان  رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ(سالِ وفات:1340ھ/1921ء) لکھتے ہیں: ”اسٹیشن پر جانے والی گاڑیاں اگر کوئی مانع قوی نہ ہو، تو ہر گاڑی کہ آمد و رفت پر ضرور آتی جاتی ہیں۔ اگر زید اسٹیشن پر تلاش کرتا ، ملنا آسان تھا، اب بھی خودیا بذریعہ کسی متدین معتمد کے تلاش کرائے ، اگر ملے ،دے دئیے جائیں، ورنہ جب یاس و نا امیدی ہوجائے ، اس کی طرف سے تصدق کر دے، اگر پھر کبھی وہ ملے اور اس تصدق پر راضی نہ ہو،اسے اپنے پاس سے دے۔کما ھو شان اللقطۃ و سائر الضوائع۔(جیسا کہ لقطہ اور دیگر گری پڑی اشیاء کا حال ہوتا ہے۔)(فتاوی رضویہ، جلد 25، صفحہ 55،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن،لاھور )

   امام اہلسنت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن اپنے ایک فتوے میں چندہ دہندگان کے نہ ملنے کی صورت میں حکم ارشاد فر ماتے ہیں:’’ہاں جو اُن میں نہ رہا اور اُن کے وارث بھی نہ رہے یا پتانہیں چلتا یا معلوم نہیں ہوسکتا کہ کس کس سے لیاتھا، کیا کیا تھا، وہ مثل مالِ لقطہ ہے، مصارفِ خیر مثل مسجد اور مدرسہ اہل سنت ومطبع اہل سنت وغیرہ میں صَرف ہو سکتا ہے۔‘‘(فتاوی رضویہ جلد 23،صفحہ 563،رضا فاؤنڈیشن، لاہور(

   یہی حکم مقروض کے فوت ہونے کے بعد ورثا کے لیے بھی ہے،چنانچہ علامہ ابنِ عابدین شامی دِمِشقی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ(سالِ وفات:1252ھ/ 1836ء) لکھتے ہیں:وإن علم الوارث دين مورثه والدين غصب أو غيره فعليه أن يقضيه من التركة،وإن لم يقض فهو مؤاخذ به في الآخرة،وإن لم يجد المديون ولا وارثه صاحب الدين ولا وارثه فتصدق المديون أو وارثه عن صاحب الدين برئ في الآخرة ترجمہ:اور اگر وارث کو اپنے  مورث کے قرض کا علم ہو، خواہ دین  غصب کی صورت میں ہو یا کسی اور صورت میں، وارث پر لازم ہے کہ اس کو ترکہ سے ادا کرے اور اگر وہ ادا نہیں کرے گا،تو آخرت میں اِس کی پکڑ ہو گی اور اگر مقروض  یا اس کے وارث کو  قرض خواہ یا قرض خواہ کے وارث کو علم نہ ہو،تو مقروض  یا اس کا وارث  ،قرض خواہ کی طرف سے صدقہ کر دے،مورث آخرت میں اس سے بری ہو جائے گا۔(ردالمحتار مع  الدرالمختار، کتاب اللقطۃ، جلد6، صفحہ434، مطبوعہ  کوئٹہ)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم