قرض معاف کرنے کے بعد واپسی کا مطالبہ کرسکتے ہیں؟

قرض معاف کرنے کے بعد دوبارہ مطالبہ کرنا کیسا؟

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ میں نے اپنے ایک دوست کو کچھ رقم قرض دی تھی۔ بعد میں ایک موقع پر میں نے اس سے کہا: ”مجھے پیسوں کی ضرورت نہیں، میں نے اپنا قرض معاف کردیا“، اور اس وقت میرے دوست نے کوئی جواب نہیں دیا۔ اب کچھ عرصے بعد مجھے پیسوں کی اشدضرورت ہے، تو کیا شرعاً میرے لیے دوبارہ اس قرض کا مطالبہ کرنا جائز ہے؟ اور اگر میں مطالبہ نہ کروں اور وہ خود رقم واپس کردے، تو کیا ایسی صورت میں میرے لیے وہ رقم لینا جائز ہوگا؟ برائے کرم شرعی رہنمائی فرمائیں۔

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

پوچھی گئی صورت میں شرعاً قرض معاف ہوچکا ہے، لہٰذا دوبارہ اس کا مطالبہ کرنا جائز نہیں، ہاں اگرآپ کا دوست پھر بھی بطور تبرع(نیکی کے طور پر) رقم دینا چاہے، تو آپ کے لئے وہ رقم لینا جائز ہے۔

البتہ اگرقرائن وغیرہ کی رُو سےظاہر ہوجائے کہ وہ رقم کی ادائیگی اس گمان میں کررہاہے کہ قرض اب بھی اس کے ذمہ باقی ہے ،تو آپ پر لازم ہے کہ اُسے بتائیں کہ شرعاً قرض معاف ہو چکا ہے۔ ایسی صورت میں اُسے بتائے بغیر رقم لینا ناجائز ہے اور اگر لے لیا توواپس کرنا لازم ہوگا۔ ہاں اگربتانے کے بعد بھی وہ دینے پر راضی رہے،تو اب لینے میں کوئی حرج نہیں،لیکن یہ قرض کی واپسی نہیں ہوگی،بلکہ اس کی طرف سے احسان ہوگا۔

جب قرض خواہ مقروض کوقرض ہبہ یا معاف کردے،تو شرعاقرض معاف ہوجاتا ہے ،اس کے نفاذ میں مقروض کے قبول کی حاجت نہیں ہوتی۔بس اتنا ضروری ہوتا ہے کہ وہ رد نہ کرے۔ فتاوی ہندیہ میں ہے:

هبة الدين ممن عليه الدين وإبراءه يتم من غير قبول من المديون ويرتد برده ذكره عامة المشايخ رحمهم اللہ تعالى،وهو المختار، كذا في جواهر الأخلاطي

جس پر دین ہو،اسے دین ہبہ کرنا، یونہی دین معاف کردینا مقروض کے قبول کے بغیر مکمل ہوجاتا ہے،تاہم اگر مقروض رد کرے،تو رد ہوجاتا ہے۔اسے عامہ مشائخ نے ذکر کیا ہے ،یہی مختار ہے،اسی طرح جواہر اخلاطی میں بھی ہے۔ (الفتاوی الھندیۃ،ج04،ص284،دار الفكر)

نہایہ میں ہے:

هو أن في الابراء معنى الاسقاط ومعنى التمليك. أما معنى الاسقاط: فهو: أن الابراء عبارة عن إزالة حق شرعي له متعلق بالغير وكان نظير الطلاق والعتاق وكذلك من حيث الحكم فإن الإبراء لا يتوقف صحته إلى القبول كما في الطلاق والعتاق والعفو عن القصاص. وأما معنى التمليك فيه: فلأن اللہ تعالى سمى إبراء الدين التصدق في قوله تعالى:﴿وَاِنْ كَانَ ذُو عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ اِلَى مَيْسَرَةٍ وَ اَنْ تَصَدَّقُوْا خَيْرٌ لَكُمْ﴾ و التصدق عبارة عن تمليك المال.وكذلك من حيث الحكم. فإن الابراء يرتد بالرد كما في سائر التمليكات

معاف کرنے میں اسقاط او رتملیک دونوں کا معنی پایا جاتا ہے۔معنی اسقاط تو اس طرح کہ ابراء کسی پر لازم اپنے حق کو ختم کردینا ہے،لہذا یہ طلاق،عتاق وغیرہ کی نظیر ہے،اور من حیث الحکم بھی،کیونکہ اس میں فریق مخالف کی جانب سے قبول کی ضرورت نہیں ہوتی ،جیساکہ طلاق،عتاق اور قصاص میں نہیں ہوتی۔رہا تملیک کا معنی تو وہ یوں کہ رب ذوالجلا ل نے قرض کی معافی کو اپنے اس قول میں صدقہ قرار دیا کہ ”اور اگر مقروض تنگدست ہو تو اسے آسانی تک مہلت دو اور تمہارا قرض کوصدقہ کردینا تمہارے لئے سب سے بہتر ہے اگر تم جان لو“۔اور صدقہ تملیک مال کو کہتے ہیں ،لہذا یہ من حیث الحکم بھی اس کی طرح ہوگا ،اور رد کردینے سے رد ہوجائے گا جیسا کہ دیگر تملیکات میں ہوتا ہے۔ (النھایۃ شرح الھدایۃ، ج 17، ص 194، مركز الدراسات الإسلامية بكلية الشريعة والدراسات الإسلامية بجامعة أم القرى)

فتاوی رضویہ میں ہے:” ہندہ نے اپنی صحت میں مہر زید کوبخشا تو اس ہبہ کا نفاذ بلا شبہ ہوگیا، اس میں ہندہ کی طرف سے صرف ایجاب کافی تھا بشرطیکہ زید نے اس کو رد نہ کیا ہو۔“ (مترجم از فارسی،فتاوی رضویہ، ج 19، ص 233، رضا فاؤنڈیشن لاھور)

اور رد کرنے کا اختیار بھی ہے اسی مجلس تک ہے،اس کے بعد رد کرنے سے رد نہیں ہوگا ۔در مختار میں ہے:

في الصيرفية لو لم يقبل، ولم يرد حتى افترقا،ثم بعد أيام رد لا يرتد في الصحيح

صیرفیہ میں ہے اگر قبول کیااورنہ ہی رد، یہاں تک کہ مجلس ختم ہوگئی،پھر کچھ دن بعد رد کیا ،تو رد نہیں ہوگا۔ (در مختار مع شامی،ج05،ص728،دار الفکر)

بہار شریعت میں ہے:” مدیون کو دین ہبہ کردینا ایک وجہ سے تملیک ہے اور ایک وجہ سے اسقاط، لہٰذا رد کرنے سے رد ہوجائے گااور چونکہ اسقاط بھی ہے لہٰذا قبول پر موقوف نہ ہوگا۔۔۔ دائن نے مدیون کو دین ہبہ کردیا اور اُس وقت نہ اُس نے قبول کیانہ رد کیا دو تین دن کے بعد آکر اُسے رد کرتا ہے صحیح یہ ہے کہ اب رد نہیں کرسکتا۔“مزید لکھتے ہیں:” دائن کو خبرملی کہ مدیون مرگیا اس نے کہامیں نے اپنا دَین معاف کردیا ہبہ کردیا بعد میں پھر پتاچلا کہ وہ زندہ ہے اُس سے دین کا مطالبہ نہیں کرسکتا کہ معافی بلا شرط تھی۔‘‘(بہار شریعت،ج03،ص99-100،مکتبۃ المدینۃ کراچی)

اگر کوئی مسلمان کسی دوسرے شخص کو یہ سمجھ کر کچھ دے کہ دینا مجھ پر لازم ہے لیکن حقیقتا اس پرلازم نہ ہو،اور دوسرا شخص یہ جانتا بھی ہو، تو دوسرے شخص کے لئےاس کا لینا ناجائز و حرام ہے۔اگر پھر بھی لے لیتا ہے تو اس کی ملک میں داخل نہیں ہوگا اور بہر حال اسے واپس کرنا لازم رہے گا۔ بغیر سبب شرعی کسی مسلمان کا مال لینا جائز نہیں۔بحر الرائق میں ہے:

لا یجوز لاحد من المسلمین اخذ مال احد بغیر سبب شرعی

کسی مسلمان کے لئے دوسرے کا مال سبب شرعی کے بغیر لیناجائز نہیں۔ (بحر الرائق،ج05،ص 44،دار الکتب السلامی)

فتاوی رضویہ میں ہے:” پیر کا اس کے مانگنے پر اس کے معاوضہ میں اور زیور اپنے پاس سے دے دینا اگر اس بنا پر ہو کہ اس نے سمجھا کہ جب دینے والا مجھ سے واپس مانگتا ہے تو شرعا اس کا عوض دینا مجھ پر لازم جب تو یہ دینا محض باطل ہوا مرید کو اس زیور کا لینا حرام ہے، نہ اسے خیرات کرسکتاہے، نہ اپنے صرف میں لاسکتاہے، بلکہ اس پر لازم کہ وہ زیور پیر کو واپس دے اور اگر خرچ کرلیا ،تو اس کا تاوان دے کر اس تقدیر پر پیر کا یہ زیور دینا ایک غلط فہمی پر مبنی تھا کہ یہاں عوض دینا مجھ پر شرعاً لازم ہے ،حالانکہ شرعا ہر گز لزوم نہ تھا، تو یہ زیور کسی عقد شرعی کے ذریعہ سے ملک مرید نہ ہوا اور بدستور ملک پیر پر باقی رہا ،اس کا ایسا فہم معتبر نہیں۔“ (فتاوی رضویہ، ج19، ص 268،رضا فاؤنڈیشن لاھور)

عقود الدریہ میں ہے:

لو ظن أن علیہ دیناً فبان خلافہ یرجع بما أدی ولو کان استھلکہ رجع ببدلہ

اگر اپنے اوپر دین لازم سمجھتے ہوئے ادا کرے ا وربعد میں اس کے خلاف ظاہر ہو، تو ادا کیے ہوئے دین کو واپس لے سکتا ہے اور اگر لینے والا اسے ہلاک کرچکا تو اس کا بدلے گا۔(العقود الدریۃ ،ج01،ص218، دار المعرفة)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتویٰ نمبر: HAB-0615

تاریخ اجراء: 02 صفر المظفر1447ھ/28 جولائی2025ء