
مجیب: مولانا محمد آصف عطاری مدنی
فتوی نمبر: WAT-3766
تاریخ اجراء: 29 شوال المکرم 1446 ھ/28 اپریل 2025 ء
دار الافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
میرا سوال یہ ہے کہ اگر میں نے کسی کو قرض دیا ہو اور اس نے مقررہ وقت تک لوٹانے کا بھی کہا، لیکن کئی سال گزر گئے ہیں اس نے واپس نہیں کیا، اور وہ مالی اعتبار سے بھی ہم سے بہتر ہے، اب مجھے اس وقت ان پیسوں کی شدید حاجت ہے، تو کیا سفارش کے طور پر کسی ایسے بندے سے یہ بات کر سکتا ہوں کہ جس پر یقین ہے کہ وہ اس سے کہے گا تو وہ قرض لوٹادےگا، تو کیا اس بندے سے یہ بات کرسکتا ہوں؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
قرض دینے والے کی اجازت کے بغیر اس کی ادائیگی میں بلا وجہ ٹال مٹول اور دیر کرنا شرعاً ناجائز و گناہ ہے اور اسے حدیثِ پاک میں ظلم قرار دیا گیا ہے اور اپنے اوپر ہوئے ظلم کی فریاد کسی ایسے بندے سے کرنا جائزہے کہ جس کے متعلق معلوم ہو کہ اس سے بات کرنے سے کام ہوجائے گا، لہذا اگر آپ کو معلوم ہے کہ اس بندے کی بات مان کر وہ مقروض قرض ادا کردے گا تو اس سے بات کرنا آپ کے لئے جائز ہے۔
قرآن پاک میں ارشادخداوندی ہے:
مَنْ یَّشْفَعْ شَفَاعَةً حَسَنَةً یَّكُنْ لَّهٗ نَصِیْبٌ مِّنْهَا
ترجمہ کنزالایمان: جو اچھی سفارش کرے اُس کے لیے اس میں سے حصّہ ہے۔ (سورۃ النسآء، پ 05، آیت 85)
اس کے تحت تفسیرنسفی میں ہے
"هي الشفاعة في دفع شر أو جلب نفع مع جوازها شرعاً"
ترجمہ: اس سفارش سے مرادہے کہ کوئی برائی دورکرنے یاکوئی نفع حاصل کرنے کی سفارش کرناجبکہ شرعا جائز ہو۔(تفسیرنسفی، ج 01، ص 380، دار الکلم الطیب، بیروت)
حدیثِ پاک میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا:
”مطل الغني ظلم“
ترجمہ: (قرض لوٹانے میں) صاحبِ استطاعت کا ٹال مٹول کرنا ظلم ہے۔ (صحیح البخاری، جلد 3، صفحہ 118، رقم الحدیث 2400، دار طوق النجاۃ)
اسی طرح کی صورت کے متعلق فتاوی رضویہ میں ہے "اشباہ و النظائر میں ہے:
خلف الوعدحرام
(وعدہ جھوٹا کرنا حرام ہے) ۔۔۔ صورت مستفسرہ میں زیدفاسق وفاجر، مرتکب کبائر، ظالم، کذّاب، مستحق عذاب ہے۔ اس سے زیادہ اورکیا القاب اپنے لئے چاہتاہے، اگراس حالت میں مرگیا اوردین لوگوں کا اس پر باقی رہا اس کی نیکیاں ان کے مطالبہ میں دی جائیں گی اور کیونکردی جائیں گی تقریباً تین پیسہ دین کے عوض سات سو نمازیں باجماعت ۔۔۔۔ جب اس کے پاس نیکیاں نہ رہیں گی ان کے گناہ ان کے سرپر رکھے جائیں گے
و یلقی فی النّار
اور آگ میں پھینک دیاجائے گا، یہ حکم عدل ہے، اور اﷲ تعالٰی حقوق العباد معاف نہیں کرتا جب تک بندے خود معاف نہ کریں۔“ (فتاوی رضویہ، جلد 25، صفحہ 69، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
قرض نہ لوٹاناحدیث میں ظلم قراردیا گیا اورظلم کی شکایت کے حوالے سے الرفع والتکمیل میں ہے:
”التظلم: فيجوز للمظلوم أن يتظلم إلى السلطان و القاضي و غيرهما ممن له ولاية أو قدرة على إنصافه من ظلامه فيقول فلان ظلمني كذا“
ترجمہ: ظلم کی شکایت کرنا: مظلوم کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے اوپر ہونے والے ظلم کی شکایت سلطان، قاضی یا ایسے دیگر افراد سے کرے جن کے پاس اس کی داد رسی اور انصاف کی قدرت یا اختیارہو، چنانچہ مظلوم کہہ سکتا ہے ”فلاں شخص نے مجھ پر اس طرح ظلم کیا ہے۔“ (الرفع و التکمیل، صفحہ 53، مکتب المطبوعات الاسلامیۃ، حلب)
در مختار میں ہے
”لا إثم عليه۔۔۔ لشكوى ظلامته للحاكم“
ترجمہ: حاکم کے سامنے ظالم کے ظلم کی شکایت کرنے والے پر کوئی گناہ نہیں۔
اس کے تحت رد المحتار میں ہے
”فيقول ظلمني فلان بكذا لينصفه منه“
ترجمہ:پس وہ حاکم کو کہے کہ فلاں نے مجھ پر یوں ظلم کیا ہے تاکہ وہ اسے انصاف دلائے۔ (در مختار مع رد المحتار، ج 6، ص 408 ،409، دار الفکر، بیروت)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰ%