Qarzdar se Cheez Sasti Karwake Lena Kaisa?

قرض کی وجہ سے مقروض سے چیز سستی خریدنا کیسا؟

مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر:FSD 8987

تاریخ اجراء:04 محرم الحرام1446ھ/11 جولائی2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلے کےبارے میں کہ اگر کوئی شخص کسی کو ڈیڑھ لاکھ روپے قرض دے، تاکہ وہ بھینس خرید لے اور قرض دینے والا اس مقروض  سے یہ طے کرے کہ وہ اس ڈیڑھ لاکھ  روپے کا  اس سے دودھ خریدے گا اور مارکیٹ ریٹ سے کچھ کم قیمت پر لے گا، مثلاً: مارکیٹ میں  ایک من دودھ اگر6000  روپے کا ہے، تو قرض خواہ  اس سے5700روپے کا لے گا،یوں اس طرح اسے ہر ایک من پر تین سو کا نفع ہوگا، تو کیا اس قرض خواہ کے لیے ایسا  معاہدہ کرنا، جائز ہے یا نہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   پوچھی گئی صورت میں  قرض خواہ کا ڈیڑھ لاکھ روپے قرض دینے  کی وجہ سے  مارکیٹ ریٹ سے کم قیمت پر  دودھ خریدنا، قرض پر مشروط نفع لینا ہے، جو کہ ناجائز وگناہ اور سود ہے، کیونکہ قرض کی وجہ سے کسی قسم کا مشروط نفع لینا   مطلقاً سود ہے ، خواہ وہ صراحتاً مشروط ہو یا دلالۃً، اور فقہائے کرام نے قرض کی وجہ سے کسی قسم کی  مشروط رعایت یا حق میں کمی کرنے کو بھی سود قرار دیا ہے، لہٰذا   شرعی طور پر ایسا معاہدہ کرنا، جائز نہیں۔

   اللہ پاک سود کی حرمت کے متعلق ارشاد فرماتا ہے:﴿وَ اَحَلَّ اللّٰهُ الْبَیْعَ وَ حَرَّمَ الرِّبٰواترجمہ کنزالعرفان:حالانکہ اللہ نے خریدوفروخت کو حلال کیا اور سود کو حرام کیا۔(پارہ02،سورۃ البقرۃ،آیت275)

   حضرت سیدنا جابر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ بیان کرتے ہیں:لعن رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم آکل الربا و موکلہ و کاتبہ و شاھدیہ و قال ھم سواءترجمہ: حضورِ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے سود کھانے والے، سود کھلانے والے، سودی کاغذ لکھنے والے اور اس پر گواہ بننے والوں پر لعنت فرمائی اور فرمایا  یہ سب لوگ(گناہ میں) برابر ہیں۔(صحیح المسلم، جلد05،صفحہ50،مطبوعہ دار الطباعۃ العامرۃ، ترکیا)

   نفع کے ساتھ مشروط قرض کے متعلق نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:”کل قرض جر منفعۃ فھو ربا“ترجمہ:ہر وہ قرض جو منفعت لائے، وہ سود ہے۔(کنزالعمال،جلد06،صفحہ99، مطبوعہ دارالکتب العلمیة، بیروت)

   قرض   پر کسی بھی طرح کا نفع حاصل کرنے کی ایک  صورت یہ بھی ہے کہ قرض لینے والا  قرض کی وجہ سے اپنی کوئی چیز قرض دینے والے کو   اصل قیمت سے سستی بیچے، جیسا کہ شیخ الاسلام   ابو الحسن على بن حسین سُغْدى حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ(سالِ وفات: 461ھ/1068ء)لکھتے ہیں:”والآخر ان یجر إلی نفسه منفعةً بذلک القرض،او تجر إلیه وهو ان یبیعه المستقرض شيئا بارخص مما یباع او یوجره او یهبه۔۔۔لو لم یکن سبب ذلک(هذا)القرض لما کان(ذلک ) الفعل، فان ذلک ربا‘‘ترجمہ:(قرض پر کسی بھی طرح  کانفع حاصل کرنے کی) دوسری صورت یہ ہے کہ قرض لینے والا  قرض کی وجہ سے اپنی کوئی چیز قرض دینے والے کو   اصل قیمت سے سستی بیچےیا  کوئی چیز اصل اجرت سے کم اجرت پر اجارہ پر دے  یا کوئی چیز ہبہ کردے۔۔۔ اگر یہ قرض  نہ ہوتا ، تو ریٹ میں کمی کا یہ معاملہ بھی نہ ہوتا  اور   یہی سود ہے۔(النتف فی الفتاوی، صفحہ296، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ، بیروت)

   امامِ اہلِ سنّت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ(سالِ وفات:1340ھ/1921ء) سے سوال ہوا کہ:”ایک شخص دوسرے کو کچھ رقم بطورِ قرض دیتا ہے اور وہ اس وجہ سے اس سے مارکیٹ ریٹ سے سستی گندم لیتا ہے،تو شرعاً ایسا کرنا کیسا  ہے؟ تو آپ عَلَیْہِ الرَّحْمَۃ نے جواباً ارشاد فرمایا: اگر روپیہ قرض دیا اور یہ شرط کرلی کہ چار مہینے کے بعد ایک روپے کے پچیس ماء(ایک پیمانہ) گیہوں  لیں  گے اور نرخ بازار پچیس سیر سے بہت کم ہے،تو یہ محض سود اور سخت حرام ہے،  حدیث میں ہے:”کل قرض جرمنفعۃ فھو رباجو  قرض نفع کو کھینچے وہ سود ہے۔(فتاوی رضویہ، جلد17، صفحہ 33،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم