سونا قرض لیا تو واپس سونا ہی کرنا ہوگا یا ہیسے دے سکتے ہیں؟

سونا قرض لیا ہو تو واپس سونا ہی کرنا ہے یا رقم دینی ہوگی؟

مجیب: ابو الحسن رضا محمدعطاری مدنی

مصدق: ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر: Nor-13633

تاریخ اجراء: 06 جمادی الثانی 1446 ھ/09 دسمبر 2024 ء

دار الافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ اگر کسی نےکسی کوخالص سوناقرض دیاہوتوقرض ادا کرنے میں مقروض پر کیا لازم ہوگا؟ جتنا سونا لیا تھا، اتنی مقدار کا سونادے گا یا اس کی قیمت دےگا؟ اگر مقروض یہ کہے کہ ”جس وقت آپ نے سونا دیا تھا، اس وقت سونے کی جو قیمت تھی اس کے حساب سے رقم واپس کروں گا“ تو اس کی اس بات کی کیا شرعی حیثیت ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

   پوچھی گئی صورت میں مقروض نےجس مقدار  اورجس کوالٹی کا سونا قرض لیا تھا، اتنی مقدار میں اور اسی کوالٹی کا سونا واپس کرنا اس کے ذمہ لازم ہو گا کیونکہ خالص سونا مثلی شے (اس کی مثل بازار میں پائی جاتی) ہے اور جب مثلی شے قرض میں دی جائے تولوٹاتے وقت اس کی مثل ہی دینا لازم ہوتا ہے، اس میں قیمت یعنی سونے کے مہنگے یا سستے ہونے کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا۔ لہذا مقروض کی یہ بات کہ جس وقت آپ نے سونا دیا تھا، اس وقت سونے کی جو قیمت تھی اس کے حساب سے رقم واپس کروں گا شرعاً درست نہیں اور اس پر سونا دینا ہی لازم ہے خواہ اس کی قیمت کوئی بھی ہو۔

   مثلی شےقرض دی تو واپسی میں اسی کی مثل چیز دینی ہو گی، چیز کے سستےیامہنگے ہونے کا اعتبار نہیں جیساکہ محقّق و مدقّق علامہ علاؤ الدین محمد بن علی حصکفی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی: 1088 ھ) فرماتے ہیں:

   انه مضمون بمثله فلا عبرة بغلائه و رخصه

   یعنی قرض میں جو شے لی گئی اس کی مثل ہی لوٹانی ہوگی لہذا  اس کے مہنگے یا سستے ہونے کا کوئی اعتبار نہیں ہوگا۔

   خاتم المحققین علامہ محمد امین بن عمرابن عابدین شامی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

(قوله فلا عبرة بغلائه و رخصه)۔۔۔ لو قال: اقرضنی عشرة دراهم غلة بدينار فاعطاه عشرة دراهم فعليه مثلها و لا ينظر الى غلاء الدراهم ولا الى رخصها و كذلك كل ما يكال و يوزن فالقرض فيه جائز و كذلك ما يعد من البيض و الجوز و فی الفتاوى الهندية: استقرض حنطة فاعطى مثلها بعدما تغير سعرها يجبر المقرض على القبول“

   یعنی قرض میں چیز کےمہنگے یا سستے ہونے کا کوئی اعتبار نہیں لہذااگر کسی نے دوسرے سےکہا:تم  مجھے دس در ہم کا  غلہ ایک دینار کے عوض قرض  دے دوچنانچہ اس نے مانگنے والےکودس در ہم(چاندی کےسکے) دے دیئے تو مقروض پر ان درہموں  کی مثل واپس کرنا واجب ہوں گے (یعنی دس درہم ہی دینے ہوں گے)، در ہم کے مہنگے یا سستے ہونے کونہیں دیکھیں گے یہی حکم ہراس چیز کا ہے جس کا لین دین ونی یا ناپ کر کیا جاتا ہے لہذا ان چیزوں میں قرض جائز ہے نیز عددی چیزوں مثلاً انڈے، اخروٹ کا بھی یہی حکم ہے۔ فتاوی عالمگیری میں ہے: کسی نے دوسرے شخص سے گندم قرض لی اورمقروض نےاتنی ہی گندم واپس کردی لیکن واپسی کے وقت گندم کابھاؤتبدیل ہوچکا تھا تو قرض خواہ کو اس کے قبول کرنے پر مجبور کیاجائے گا۔ (الدرّ المختار و ردّ المحتار، ج 07، ص 408، مطبوعہ کوئٹہ)

   فتاوی عالمگیری میں ہے:

   لو استقرض من آخر حنطة فاعطى مثلها بعدما تغير سعرها فانه يجبر المقرض على القبول كذا في مختار الفتاوی ويجوز استقراض الذهب والفضة وزناً ولا يجوز عددا كذا فی التتار خانية

   یعنی اگر کسی نے دوسرے شخص سے گندم قرض لی اورمقروض نے ویسی ہی گندم واپس کردی لیکن واپسی کے وقت گندم کا نرخ تبدیل ہوچکا تھاتوقرض خواہ کو گندم  قبول کرنے پر مجبور کیاجائے گا (یعنی وہ قیمت نہیں لےسکتا) ’’مختار الفتاویٰ‘‘ میں اسی طرح ہے۔ سونے اور چاندی کو وزن کے اعتبار سے قرض دینا جائز ہے، گن کر  قرض دینا جائز نہیں، ’’فتاوی تاتار خانیہ ‘‘میں اسی طرح ہے۔ (الفتاوی الھندیۃ، ج 3، ص 202، مطبوعہ پشاور)

   صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:”قرض کا حکم یہ ہے کہ جو چیز لی گئی ہےاُس کی مثل ادا کی جائے لہذا جس کی مثل نہیں،قرض دینا صحیح نہیں۔۔۔ ادائے قرض میں چیز کے سستے مہنگے ہونے کا اعتبار نہیں مثلاً دس سیر گیہوں قرض لئے تھے اُن کی قیمت ایک روپیہ تھی اور ادا کرنے کے دن ایک روپیہ سے کم یا زیادہ ہے،  اس کا بالکل لحاظ نہیں کیا جائے گا، وہی دس سیر گیہوں دینے ہوں گے۔ (بھار شریعت، ج 02، حصہ 11، ص 756، 757، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ، ملتقطاً)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم