
دارالافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
سوال
والد اپنی زندگی میں اپنے ذمے قرض کی ادائیگی اولاد کے حوالے کر سکتا ہے؟اور اولاد اس کو قبول بھی کر لے تو عند اللہ والد گناہ گار تو نہیں ہو گا ؟
جواب
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جی ہاں!والد اپنے ذمے پر لازم قرض ،اولاد کے حوالے کرسکتا ہے اور جب قرض خواہ اور جس اولاد پر حوالہ کررہا ہے،وہ دونوں راضی ہوں اور اسے قبول کرلیں، تو والدقرض سے برئ الذمہ ہوجائےگا ،اب قرض کا مطالبہ اولاد سے ہوگا اس سے نہیں،لیکن دو صورتیں ایسی ہیں جن میں قرض کا مطالبہ واپس حوالہ کرنے والے پر آجاتاہے،اوروہ یہ ہیں :
(1) محتال علیہ( یعنی جس پر قرض کا حوالہ کیا گیا تھا جیسے یہاں اولاد) وہ حوالہ کیے جانے سے انکار کردے اور مقروض و قرض خواہ کسی کے پاس گواہ نہ ہوں اور محتال علیہ(جس پرحوالہ کیاگیا تھاجیسے یہاں اولاد) حوالے سے انکار پر قسم کھا لے ۔
(2)محتال علیہ(جس پرحوالہ کیاگیا جیسے یہاں اولاد) مفلسی کی حالت میں فوت ہوجائے اور اس نے کوئی نقد مال یا دَین یا کفیل یعنی ضامن نہ چھوڑا ہو کہ جس سے یہ اپنا قرض لے سکے ۔
ان دو صورتوں میں قرض خواہ اپنے مقروض سے دوبارہ مطالبہ کر سکتا ہے ، ان کے علاوہ نہیں کر سکتا ۔
درر الحکام شرح مجلۃ الاحکام میں ہے:
”رضا المحال لہ وقبول لہ شرط بالاجماع۔۔۔ورضا وقبول المحال علیہ ایضا شرط“
محال لہ کا راضی ہونا اور اس کا قبول کرنا بالاجماع شرط ہے،یونہی محال علیہ کی رضا اور اس کا قبول کرنا بھی شرط ہے۔ (درر الحکام شرح مجلۃ الاحکام ، ج02،ص 18، دار الجيل)
شرح المجلۃ میں ہے:
”فائدۃ براءۃ المحیل انہ لو مات لا یکون للمحال لہ ان یاخذ الدین من ترکتہ ولکن لہ ان یاخذ کفیلا من ورثتہ مخافۃ ان یتوی حقہ“
یعنی حوالہ کرنے والے کے بری ہوجانے کا فائدہ یہ ہے کہ اگر وہ مرجائے تو محال لہ کو محیل کےترکہ سے لینے کا اختیار نہیں،لیکن اپنے حق کے ضائع ہونے کے اندیشے کے سبب کسی وارث کو کفیل بناسکتا ہے۔ (شرح المجلۃ،ص297،دار الکتب العلمیۃ، بیروت)
حوالہ کے حکم کے متعلق تنویر الابصار و در مختار میں ہے
"و برئ المحیل من الدین و المطالبۃ جمیعا (بالقبول) من المحتال للحوالۃ (و لا یرجع المحتال علی المحیل الا بالتوی و ھو) باحد امرین ( ان یجحد) المحال علیہ (الحوالۃ و یحلف و لا بینۃ لہ) ای : لمحتال و محیل (او یموت) المحال علیہ (مفلسا) بغیر عین و دین و کفیل،ملتقطاً"
ترجمہ : اور محتال (قرض خواہ) کے حوالہ کو قبول کر لینے سے محیل دَین اور مطالبے دونوں سے آزاد ہو جائے گا اور محتال ہلاکت کی صورت کے علاوہ محیل پر رجوع نہیں کرے گا اور ہلاکت دو صورتوں میں سے کسی ایک کے ساتھ ہوتی ہے ، یہ کہ محال علیہ حوالہ سے انکار کر دے اور قسم کھا لے اور محتال اور محیل کے پاس گواہ نہ ہوں ، یا محال علیہ کسی نقد مال یا دَین یا کفیل (ضامن) کو چھوڑے بغیر محتاجی کی حالت میں فوت ہو جائے ۔ (تنویر الابصار و الدر المختار مع رد المحتار ، ج 5 ، ص 344،345، دار الفکر،بیروت)
سیدی اعلیٰ حضرت الشاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"حوالہ کے بعد دائن کو اصلاً اختیار نہیں رہتا کہ اصل مدیون سے اپنے دَین کا مطالبہ کرے ، ہاں اگر محتال علیہ حوالہ ہونے سے مکر جائے اور قسم کھا لے اور محیل و محتال کسی کے پاس گواہ نہ ہوں ، یا محتال علیہ مفلس مر جائے کہ جائداد یا مالِ نقد یا قرض نہ چھوڑے ، نہ کوئی اس کی طرف سے ضامن ہو ، تو صرف اس صورت میں حوالہ باطل ہو کر دَین پھر اصل مدیون پر عود کرتا ہے ۔" (فتاوٰی رضویہ ،ج17 ،ص710 ، رضا فاؤنڈیشن ، لاھور)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مولانا محمد نوید چشتی عطاری مدنی
فتوی نمبر:WAT-3851
تاریخ اجراء: 24ذوالقعدۃ الحرام1446ھ/22مئی2025ء