واپسی میں اضافی رقم دینے والے کو قرض دینا کیسا؟

جس کا پتہ ہو کہ قرض کے ساتھ کچھ زیادہ واپس کرتا ہے، اس کو قرض دینا کیسا؟

مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر:HAB-0514

تاریخ اجراء:16 شعبان المعظم 1446 ھ/15 فروری 2025 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان ِ شرع متین اس مسئلے میں کہ  کسی ایسے شخص کو قرض دینا جس کی عادت ہے کہ وہ قرض واپس کرتے وقت  اپنی طرف سےاضافی رقم دیتا ہے، یعنی سود پر قرض نہیں لیتا  لیکن جب بھی کسی سے قرض لیتا ہے واپسی پر اضافی رقم اپنی خوشی سے دیتا ہے تو کیا ایسے شخص کو قرض دینا  اور واپسی پر اضافی رقم لینا گناہ ہوگا؟ کیونکہ اسے دینے والا جانتا ہے کہ وہ اضافی رقم دے گا۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   قرض واپس کرتے وقت  مقروض اگر قرض سے زیادہ لوٹائے اور یہ زیادہ دینا  عقد میں کسی طرح شرط نہ ہو تو شرعاً  یہ سود نہیں اور  اس کا لینا جائز و حلال ہے اور  دینا نا صرف جائز ہے بلکہ  سنت اور  اچھے اخلاق میں سے ہے، تو اگر کوئی اس میں مشہور ہے تو وہ فعل ِسنت کا عادی اور اچھے اخلاق کا مالک ہےاور یہ  اس کے سخی ہونے کی علامت ہے اور مقروض کے سخی ہونے کو فقہائے  کرام نےاس چیز کی دلیل قرار دیا کہ جو اضافہ دے رہا ہے وہ سود نہیں، بلکہ ایسے شخص کو قرض دینا اور  بلاشرط اضافہ لینا بھی جائز رہے گا، البتہ یہ لین دین عادت کی وجہ سے خود شرط عادی کے درجے میں نہ پہنچ جائے ورنہ حرام ہوجائے گااور یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ کوئی سخی اپنی  سخاوت سے زیادہ دیتا ہے تب  بھی  اسے اس نیت سے قرض دینا کہ واپسی میں زیادہ دے، یہ نیت مذموم ہے کہ  دوسروں کے مال پر اس طرح نظر رکھنا شرعا پسندیدہ نہیں۔

   تفصیل و دلائل درج ذیل ہیں:

   قرض واپس کرتے وقت  اگرزیادتی عقد میں کسی طرح شرط نہ ہو تو شرعاً  یہ سود نہیں اور اس کا لینا دینا جائز ہے۔ ذخیرہ میں ہے: ’’و اذا أرجح فی بدل القرض لو لم یکن الرجحان مشروطا فی القرض لا بأس بہ‘‘ ترجمہ: اگر کوئی قرض کے بدلے میں زیادہ  دے اور یہ زیادہ دینا مشروط نہ ہو تو اس میں حرج نہیں۔ (الذخیرۃ البرھانیۃ، ج 11، ص 109، دار الکتب العلمیۃ)

   حاشیہ سندی علی ابن ماجہ اور مرقاة المفاتیح   میں ہے، و النص للآخر: ’’من استقرض شيئا فرد أحسن أو أكثر منه من غير شرطه كان محسنا و يحل ذلك للمقرض۔۔۔ و ليس هو من قرض جر منفعة; لأن المنهي عنه ما كان مشروطا في عقد القرض‘‘ ترجمہ: جو کسی سے قرض لے اور واپسی میں  اس سے بہتر یا زیادہ واپس کرے جبکہ اس کی پہلے سے شرط نہ ہو تو ایسا کرنے والا نیکی کرنے والا ہے اور قرض دینے والے کےلیے بھی یہ زیادتی  لیناجائز ہے۔۔۔ یہ وہ قرض نہیں جو منافع لایا کہ ممنوع وہ منافع ہے جو قرض میں مشروط ہو۔ (مرقاۃ المفاتیح، ج 5، ص 1954, دار الفكر)

   بہار شریعت میں ہے: ’’واپسی قرض میں اُس چیز کی مثل دینی ہوگی جولی ہے نہ اُس سے بہتر نہ کمترہاں اگر بہتر ادا کرتا ہے اور اس کی شرط نہ تھی تو جائز ہے دائن اُس کولے سکتا ے۔ یوہیں جتنا لیا ہے ادا کے وقت اُس سے زیادہ دیتا ہے مگر اس کی شرط نہ تھی یہ بھی جائز ہے۔‘‘ (بھار شریعت، ج 2، حصہ 11، ص 759، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   بلکہ اپنی طرف سے زیادہ دینا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کے قول و  فعل   سے ثابت ہے۔ صحیح  بخاری میں ہے: ’’عن جابر بن عبد الله قال:أتيت النبي صلی اللہ علیہ وسلم۔۔۔ و كان لي عليه دين، فقضاني و زادني‘‘ ترجمہ: حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، فرماتے  ہیں :میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوا۔ ۔۔ میرا کچھ قرض نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کےذمے پر تھا تو آپ نے میرا قرض لوٹایا اور مجھے ( میرے قرض سے) زیادہ دیا۔(صحیح البخاری، ج 3، ص117، المطبعة الكبرى الأميرية، ببولاق، مصر)

   مسلم شریف میں ہے: ’’عن أبي هريرة قال: استقرض رسول الله صلی اللہ علیہ و سلم سنا فأعطى سنا فوقه و قال: خياركم محاسنكم قضاء‘‘  ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سےروایت ہے، فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو دانت والا اونٹ (کم عمر) کسی سے قرض لیا اور واپسی میں اس سے بڑھ کر (چار دانتوں والا اونٹ یعنی بڑا اونٹ) دیا اور فرمایا: تم میں سے بہتر وہ ہے جو اچھے سے  قرض لوٹائے۔  (صحیح المسلم ج 5، ص 55، دار الطباعة العامرة، تركيا)

   اسی طرح حضور علیہ السلام نے اس فعل  حسن کی ترغیب بھی ارشاد فرمائی،اور ایسا کرنے والوں کو بہترین مسلمانوں میں سے شمار کیا  جیسا کہ سنن للنسائی  میں’’فان خیر المسلمین احسنھم قضاء‘‘کے الفاظ ہیں۔ (ج 6، ص 61) ایک جگہ اللہ کے بہترین بندے قرار دیا، جیسا کہ السنن الکبری للبیھقی میں ’’فان خیار عباد اللہ  أحسنھم قضاء‘‘ کے الفاظ ہیں۔ (ج 5، ص 578) اورایک جگہ بہترین لوگ قرار دیا،  جیسا کہ  سنن ابن ماجہ میں: ’’فان خیر الناس  احسنھم قضاء‘‘ (ج 2، ص 767)  کے الفاظ ہیں، مؤطأ امام مالک  بروایت امام محمد  میں انہی الفاظ کے بعد لکھا: ’’قال محمد: و بقول ابن عمر نأخذ لا بأس بذلک، اذا کان من غیر شرط اشترط علیہ و ھو قول أبی حنیفۃ رحمہ اللہ‘‘ ترجمہ: امام محمد نے فرمایا: حضرت ابن عمر کا قول ہم اخذ کرتے ہیں (یعنی زیادتی کو جائز قرار دیتے ہیں) جبکہ مقروض  پر بغیر شرط قرار دیے ہو اور یہی امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا قول ہے۔(مؤطأ امام مالک روایۃ محمد بن الحسن الشیبانی، ص 293، المکتبۃ العلمیۃ)

   اس ’’احسنِ قضا‘‘ کی تفسیر  ’’زیادہ دینا‘‘ خود فعلِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ظاہر ہے، نیزعلامہ عینی نےصراحت کے ساتھ  لکھا: ’’لأن القضاء مع زيادة هو حسن القضاء‘‘ ترجمہ:کیونکہ اضافے کے ساتھ قرض ادا کرنا اچھے سے ادا کرنا ہے۔(عمدة القاري، ج 12، ص232، دار إحياء التراث العربي)

   ائمہ کرام نے اسے سنت ، مکارم اخلاق، مخفی صدقہ، اور ایسا کرنے والے کو  من جانب اللہ توفیق یافتہ بندہ   قرار دیا۔ حاشیہ سندی علی ابن ماجہ اور مرقاة المفاتیح   میں ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ  لکھتے ہیں، و النص للآخر: ’’الحديث دليل على أن رد الأجود في القرض أو في الدين سنة و مكارم الأخلاق‘‘ ترجمہ: حدیث اس پر دلیل ہے کہ قرض یا دین میں بہتر شے واپس کرنا سنت اور اچھے اخلا ق میں سے ہے۔ (مرقاۃ المفاتیح، ج 5، ص 1954، دار الفكر)

   علامہ مناوی رحمۃ اللہ علیہ   نے فیض القدیر میں لکھا: ’’قال بعض العارفين: فإذا كان لأحد عندك دين و قضيته فأحسن القضاء و زده في الكيل و الوزن و أرجح تكن بذلك من خيار العباد و هو الكرم الخفي اللاحق بصدقة السر‘‘ ترجمہ: بعض  عارفین نے کہا: جب تم پر کسی کا قرض ہو اور تم  قرض لوٹاؤ تو بہتر  طریقے سے قرض لوٹاؤ، ناپ تول  میں زیادتی کرو، اس وجہ سے تم بہترین لوگوں میں سے ہوجا ؤ  گے، اور یہ مخفی کرم ہے جو سری صدقےکے حکم میں ہے۔ (فيض القدیر، ج 3، ص 480، المكتبة التجارية الكبرى، مصر)

   شرح زرقانی علی المؤطا میں ہے: ’’(فإن خيار الناس أحسنهم قضاء) للدين،قال البوني: أظنه أراد أن الله يوفق لهذا خيار الناس‘‘ ترجمہ: بہتر انسان وہ ہے جو  دین لوٹاتے وقت بہتر شے دے۔ بونی نے کہا: میں سمجھتا ہوں  کہ حضور علیہ السلام کی مراد یہ ہے کہ اس چیز کی توفیق اچھے لوگوں کو  عطا کی جاتی ہے۔ (شرح زرقانی علی المؤطا، ج 3، ص 498، مكتبة الثقافة الدينية، القاهرة)

   اور مقروض اگر سخاوت میں مشہور ہویہ اس بات کی دلیل ہے کہ جو اضافہ اس نے دیا وہ قرض کا بدل نہیں جیسے کہ  اگر مقروض سخاوت میں مشہور ہو اور  دائن کو تحفہ دے تو فقہاء نے اس شہرت کو  ہبہ کے بدلِ قرض نہ ہونے کی  دلیل قرار دیا ہے، جیسے کہ محیط للبرھانی، ہندیہ، بحر الرائق، تاتارخانیہ  اور خلاصہ میں قاضی خان کے حوالے سے ہے، و النص للخلاصۃ: ’’فی فتاوی قاضی الامام: و السبب الظاھر قائم مقام العلم و ھو ان یکون بینھما مھاداۃ قبل القرض لقرابۃ أو صداقۃ أو غیرھا اذا کان المھدی رجلا معروفا بالجود والسخاوۃ فانہ یقوم مقام العلم أنہ أھدی الیہ لا لاجل الدین‘‘ ترجمہ:قاضی امام کے فتاوی میں ہے: اور سبب ظاہر علم کے قائم مقام ہے اور وہ (یہاں )یہ ہے کہ دائن و مدیون کے درمیان قرض سے پہلے تحفہ تحائف دینا قرابت  یا دوستی کی وجہ سے ہو، یا اس کے علاوہ کوئی سبب  ہو جیسے تحفہ دینے والا جود و سخا میں مشہور ہو کیونکہ یہ چیز اس علم کے قائم مقام ہے کہ اس نے یہ دین کی وجہ سے  نہیں دیا۔ (خلاصۃ الفتاوی، ج 2، ص 352، طبع کوئٹہ)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم