
مجیب:مولانا محمد کفیل رضا عطاری مدنی
فتوی نمبر:Web-2040
تاریخ اجراء: 09 جمادی الاخریٰ 1446 ھ/12 دسمبر 2024 ء
دار الافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
اگر تین یا چار ہفتے کا حمل ضائع ہو جائے، کیا تب بھی وہ فضائل ملیں گے جو کچے بچے کے گر جانے پر حدیث میں بیان ہوئے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
مدتِ حمل چھ ماہ ہونے سے پہلے گر جانے والا بچہ کچا بچہ کہلاتا ہے لہٰذا تین چار ماہ میں گرجانے والا بچہ بھی اس حکم میں شامل ہے اور حدیثِ پاک میں کچا بچہ گر جانے سے متعلق جو فضائل بیان ہوئے، وہ اس کے گر جانے پر بھی حاصل ہوں گے۔
مسلمان ماں باپ کا کچا بچہ جو حمل سے گر جاتا ہے اُس کے لیے حدیث میں فرمایاکہ قیامت کے دن اﷲ پاک سے اپنے ماں باپ کی بخشش کے لیے ایسا جھگڑے گا جیسا قرض خواہ کسی قرض دار سے، یہاں تک کہ فرمایا جائے گا:
”ایھا السقط المراغم ربہ أدخل أبویک الجنۃ“
یعنی اے کچے بچے! اپنے رب سے جھگڑنے والے! اپنے ماں باپ کا ہاتھ پکڑ لے اور جنت میں چلا جا۔ (مشکوۃ المصابیح مع مرقاۃ المفاتیح، جلد 4، صفحہ 211، مطبوعہ: کوئٹہ)
اس حدیث پاک کے الفاظ ’’السقط‘‘ کے تحت مرقاۃالمفاتیح میں ہے:
”أی: الولد الساقط قبل ستۃ أشھر۔“
یعنی ”السقط“ اس بچے کو کہتے ہیں جو چھ ماہ سے پہلے فوت ہو جائے۔“ (مرقاۃ المفاتیح، جلد 4، صفحہ 211، مطبوعہ: کوئٹہ)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم