قرآن پاک کا صرف ترجمہ ریکارڈ کروانے کا حکم؟

آیت کے بغیر صرف ترجمہ ریکارڈ کروانے کا حکم ؟

دارالافتاء اھلسنت)دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ آڈیو ویڈیو تلاوت اور تلاوت و ترجمہ کی ریکارڈنگ کروائی جاتی ہے اور لوگ سنتے ہیں۔ اگر آیت کے بغیر صرف ترجمہ ریکارڈ کرایاجائے، توازروئے شرع کیسا ہے ؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

قرآن مجید کلامِ ربانی پر مشتمل نظم(لفظ) ومعنی کے مجموعہ کا نام ہے جس کی حفاظت کی ذمہ داری رب کریم نے اپنے ذمہ قدرت پر لی ہے۔ عہد رسالتِ مآب صلی اللہ و علیہ وآلہ وسلم سے لیکر آج تک حفاظتِ قرآن کے جو بھی اقدامات کیے گئے، وہ درحقیقت ربِ ذوالجلال کے نظام ہی کا حصہ ہیں۔ ان ہی میں سے ایک اہم اقدام یہ بھی ہے کہ قرآنِ کریم کو ہمیشہ اس کے عربی متن کے ساتھ پڑھا، سیکھا، یاد اور نقل کیا جاتا رہا ہے۔ علمائےامت کا متوارث طریقہ یہی رہا ہے کہ وہ عربی متن کے بغیر قرآن پاک کی نقل و اشاعت سے گریز کرتے اور کوئی  ایسا کرنا چاہے تو اسے سختی سے منع فرماتے تھے، لہذا عربی نظم کے بغیر محض ترجمہ کی آڈیو یا ویڈیو ریکارڈنگ کی ہرگز اجازت نہیں ہوگی کہ شرعاً یہ عمل ممنوع ہے اور اس میں متعدد مفاسد موجود ہیں۔ جن کی تفصیل یہ ہے کہ:

(۱)محض ترجمہ کی اشاعت حفظِ قرآن کے منافی ہے:

قرآنِ کریم کو عربی متن کے بغیر صرف ترجمے کی صورت میں عام کرنا، حفاظتِ قرآن کےمنافی ہے۔ کیونکہ جب ترجمے کے ساتھ عربی متن نہیں ہوگا، تو ترجمے میں ہونے والی غلطیوں یا دانستہ کی جانے والی تبدیلیوں کا اندازہ لگانا دشوار ہو جائے گا اور عوام مترجم کے الفاظ کو کلام الٰہی کا حصہ سمجھنے لگے گی۔ یہ طرزِ عمل ان مستشرقین اور اسلام دشمن عناصر کو سنہری موقع فراہم کرنے کے متراف ہوگا جو قرآن میں تحریفِ معنوی کے خواہاں ہیں۔ ایسا کچھ ہی تو سابقہ آسمانی کتابوں توریت وانجیل کے ساتھ ہوا تھا کہ ترجمہ کرنے والوں نے اس میں اپنی طرف سے اضافے کئے اور وقت گزرنے کے ساتھ  اضافے اصل کلام کے ساتھ اس طرح خلط ملط ہوگئے کہ ان میں تمییز کرنا مشکل ہوگیا۔ یہ معاملہ اگرچہ قرآن مجید کے ساتھ ہوسکا ہے اور نہ کبھی ہوسکے گا کہ وعدہ الہٰی ہے لَّا یَاْتِیْهِ الْبَاطِلُ مِنْۢ بَیْنِ یَدَیْهِ وَ لَا مِنْ خَلْفِهٖؕ                       ( باطل اس کے سامنے اور اس کے پیچھے (کسی طرف) سے بھی اس کے پاس نہیں آسکتا)، تاہم ہر مسلمان پر لازم ہے کہ وہ قرآن پاک کے نظم و معنی کی حفاظت کے لئے حسب استطاعت اپنا کردار ادا کرے، یوں سداً للذرائع اس عمل کی ہرگزہرگز اجازت نہیں ہوگی۔

(۲)عربی نظم سے وابستگی کم کرنے کا باعث ہے:

عربی متن کے بغیر محض ترجمے کا رواج جوں جوں بڑھے گا، عوام کا تعلق تدریجاً اصل عربی نظم سے کمزور پڑنے لگے گا، حالانکہ قرآنِ مجید کا اعجاز، فصاحت و بلاغت، اور اس کی روحانی تاثیر کا بیشتر حصہ اسی عربی نظم سے وابستہ ہے۔ نماز، تلاوت اور دیگر عبادات کی صحت بھی اسی اصل متن پر موقوف ہے۔ ترجمہ محض فہم کا ذریعہ ہے، کلامِ الٰہی کا حقیقی قائم مقام نہیں۔ اگر اصل متن سے بے رغبتی کا رجحان فروغ پاتا ہے تو یہ عربی نظم کے حفظ میں مخل ہوگا، حالانکہ عربی متن کے ساتھ وابستگی قائم رکھنا اور اسے رواج دینا ناگزیر دینی تقاضا ہے۔

(۳)متوارث تعامل کی مخالفت:

اس میں کوئی شبہ نہیں کہ قرآنِ مجید کو سمجھنا اور اس کا پیغام دوسروں تک پہنچانا ایک نہایت محمود و مطلوب عمل ہے، اور ترجمہ کرنے والوں کی نیت بھی بظاہر یہی ہوتی ہے۔ تاہم اس مقصد کے لئے امتِ مسلمہ میں ہمیشہ سے یہی طریقہ رائج رہا ہے کہ قرآن کا ترجمہ اصل عربی متن کے ساتھ پیش کیا جائے، اور حسبِ ضرورت مختصر تفسیر بھی شامل کی جائے تاکہ مفہوم واضح ہوجائے۔ عہدِ صحابہ سے لے کر آج تک کسی صحابی، تابعی یا مجتہد سے یہ ثابت نہیں کہ انہوں نے عربی متن کے بغیر محض ترجمے کی اشاعت کی اجازت دی ہو، حالانکہ تمام ہی ادوار میں عجمی قومیں موجودرہی ہیں، جن تک قرآن کا پیغام پہنچانا ضروری تھا۔ اگر یہ طریقہ مصلحت کے تقاضوں کے مطابق ہوتا تو ضرور اپنایا جاتا، مگر تعاملِ امت اس کے خلاف ہے۔ ہاں! بعض روایات میں یہ ذکر ملتا ہے کہ سورۂ فاتحہ کا صرف فارسی ترجمہ لکھ کر اہل فارس کی طرف بھیجا گیا تھا، مگر وہ روایات سنداً ضعیف ہیں، اور بالفرض صحیح بھی ہوں، تو وہ امت کے متواتر اور اجماعی عمل کے مقابلے میں حجت نہیں بن سکتیں۔ مزید یہ کہ ترجمے کے ذریعے قرآن کو سمجھنا ایک شرعی مصلحت ہے، لیکن عربی متن کے بغیر ترجمے کا عمل اس سے کہیں بڑے مفاسد کا باعث بن سکتا ہے۔ شریعت مطہرہ کا مسلمہ اصول ہے کہ جب مصلحت و مفسدہ باہم جمع ہو جائیں اور دونوں ایک درجے کے ہوں، تو مفسدہ کو ترجیح دی جاتی ہے اور اس عمل سے روک دیا جاتا ہے جبکہ زیر بحث صورت میں مفاسد مصلحت کے مقابلے میں بدرجہا زیادہ ہیں، لہذا اس عمل کی ممانعت بدرجۂ اولیٰ ہوگی۔

قرآن مجید کی حفاظت کے لئے اب تک تمام کئے جانے والے اقدامات رب تعالی کی طرف سے تھے۔ اس کے متعلق پیر مہر علی شاہ رحمۃ اللہ تعالی علیہ لکھتے ہیں: ”وعدہ الہیہ دربار محفوظ رکھنے قرآن کریم کے بقولہ تعالی انا لہ لحافظون ہوچکا تھا مگرمعلوم نہ تھا کہ اس کی صورت کیا ہوگی۔ پھر جب الہامی طور پر قلوب صالحین میں ڈالا گیا کہ نہایت اہتمام سےاسے ایک مجموعہ کی صورت میں جمع کیا جائے اور سب مسلمان ایک نسخہ پر متفق ہوں اور ہمیشہ قار یوں کی بڑی بڑی جماعتیں خصوصا اور باقی مسلمانوں کی عموما اس کے درس کا شغل رکھیں اور بعض بالیاقت لوگ اس کی تفسیر او ربیان اسباب نزول میں شاغل رہیں اور صرف لکھے ہوئے پر ہی اعتماد نہ ہو بلکہ سلسلہ روایت ثقۃعن ثقۃ صحابہ کرام تک پہنچے اور نیز رسم خطی مصحف عثمانی بھی اس کے مطابق ہو اس کے بعد متحقق ہوگیا کہ جس کی تدوین اجماعی طر یق پر بین الدفتین یعنی ایک مجموعہ کی صورت میں ہوچکی ہے وہی محفوظ قرآن ہے اور حفظ الہی کی صورت یہی ہے۔ “ (تصفیہ مابین سنی وشیعہ، ص18، گولڑا شریف)

ریکارڈنگ والے مسئلے کی نظیر عربی متن کے بغیر محض ترجمہ کی کتابت کا مسئلہ ہے کہ اس کی ممانعت پر علمائے امت کا اجماع ہے، کیونکہ اس میں متعدد مفاسد موجود ہیں۔ اس کے متعلق صاحب ہدایہ لکھتے ہیں:

”یمنع من کتابۃ القرآن بالفارسیۃ بالاجماع، لانہ یودی الی الاخلال بحفظ القرآن، لانا امرنا بحفظ النظم والمعنی، فانہ دلالۃ علی النبوۃ، ولانہ ربما یودی الی التھاون بامر القرآن“

مصحف کو فارسی میں لکھنا بالاجماع ممنوع ہے، کیونکہ یہ حفظ قرآن کے خلل کی طرف لے جائے گا، کیونکہ ہم قرآن کے نظم و معنی کی حفاظت کے مکلف ہیں کہ یہ دلیل نبوت ہے۔ نیز بسا اوقات یہ قرآن پاک کے معاملے میں کوتاہی برتنے کا سبب بھی بن سکتا ہے۔ (التجنیس والمزید، ج01، ص477-478، ادارۃ القرآن والعلوم الاسلامیۃ)

علامہ شرنبلالی علیہ الرحمہ اپنے رسالے ”النفحۃ القدسیۃ فی احکام قراءۃ القرآن وکتابتہ بالفارسیۃ“ میں ممانعتِ کتابت پر مزید حوالہ جات نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

”فی معراج الدرایۃ انہ یمنع من کتابۃ المصحف بالفارسیۃ اشد المنع۔ ۔ ۔ ومنھا ما فی الکافی انہ لو اراد ان یکتب مصحفا بالفارسیۃ یمنع۔ ومنھا ما قال فی فتح القدیر: اراد ان یکتب مصحفا بھا یمنع، فان کتب القرآن وتفسیر کل حرف و ترجمتہ جاز انتھی“

معراج الدرایۃ میں ہے کہ فارسی میں مصحف لکھنے سے سختی سے منع کیا جائے۔ ۔ ۔ایک نص کافی کی بھی ہے: اگر فارسی میں مصحف لکھنا چاہتا ہے تو اسے منع کیا جائے۔ یونہی ایک نص صاحب فتح القدیر کی ہے کہ اگر فارسی میں مصحف لکھنا چاہتا ہے تو منع کیا جائے، ہاں اگر عربی نظم لکھنے کے ساتھ ترجمہ او رتفسیر بھی لکھتا ہے تو جائز ہے، انتہی۔ (مجموع رسائل شرنبلالیۃ، النفحۃ القدسیۃ فی احکام قراءۃ القرآن وکتابتہ بالفارسیۃ، ج01، ص437-438، دار اللباب)

سلطنت عثمانیہ کے آخری مشہور شیخ الاسلام مصطفی صبری رحمۃ اللہ تعالی علیہ اپنی کتاب ”مسئلۃ ترجمۃ القرآن “ میں اس مسئلے کو سب سے واضح انداز میں بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

”اما کتابۃ المصحف بالفارسیۃ عند فقھاء مذھب الامام فھی ممنوعۃ بالاجماع اشد المنع ان کان مستقلا مجرد عن النص العربی ومع النص العربی علی الخلاف فصاحب التجنیس منعھا ایضا وصاحب الکافی اجازھابشرط ان یکتب القرآن ویکتب تحتہ تفسیر کل حرف ونظر الفقھاء فی ذلک علی اختلاف آرائھم متوجہ الی عدم الاخلال بحفظ القرآن لانا مامورون بحفظ اللفظ والمعنی لکونہ دلیل النبوۃ فاھتموا بان لا تکون الکتابۃ بالفارسیۃ مودیۃ الی الاخلال بحفظ الاصل المطلوب حفظہ وان لا تکون مودیۃ الی التھاون بامرہ فمن منع کتابۃ المصحف بالفارسیۃ واطلق فی المنع اراد ذلک ومن اجاز واشترط کتابۃ الاصل مع الترجمۃ اراد ذلک“

امام اعظم کے فقہائے مذہب کے نزدیک  فارسی میں مصحف کو لکھنا بالاجماع سخت ممنوع ہے، جبکہ نص عربی کے بغیر ہو، اور نص عربی کے ساتھ ہو تو اس میں اختلاف ہے، صاحب تجنیس نے اس سے بھی منع فرمایا جبکہ صاحب کافی نے اس کی اجازت دی بشرطیکہ اس کے ہر حرف کے تحت تفسیرلکھی جائے۔ اگرچہ یہاں اختلاف آراء موجود ہے، تاہم تمام ہی فقہاءکا مطمع نظر یہ ہے کہ قرآن کے حفظ میں خلل نہ آئے کیونکہ ہم اس کے نظم و معنی کی حفاظت کے مکلف ہیں کہ یہ دلیل نبوت ہے، لہذا انہوں نے اس کا اہتمام کیا کہ کہیں فارسی میں لکھنا عربی نظم کہ جس کا  حفظ مطلوب ہے، اس میں مخل نہ ہو، اوریہ معاملہ نظم قرآن کے ساتھ لاپرواہی برتنے کی طرف نہ لے جائے۔ لہذا جنہوں نےا س سے مطلقا منع کیا، ان کا مقصد بھی یہی ہے اور جنہوں سے عربی متن کے ساتھ لکھنے کی اجازت دی ان کا مقصد بھی یہی ہے۔ (مسئلۃ ترجمۃ القرآن، ص26، مطبوعہ قاھرۃ)

علامہ شرنبلالی علیہ الرحمہ کے رسالے میں ایک عنوان بنام ”تتمۃ لبیان احکام التلاوۃ وکتابۃ القرآن العظیم بالفارسیۃ عند باقی الائمۃ المجتھدین“ قائم کیا گیا، جس میں بقیہ ائمہ مجتہدین سے بھی ممانعتِ کتابت پر نصوص ذکر کی گئیں، تفصیل کے لئے رسالے کے متعلقہ مقام کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔ ہم یہاں صرف آپ سے اس مسئلے پر اجماع ہونے کا ذکر کریں گے اور ساتھ یہ نقل کریں گے کہ جزئیات میں فارسی زبان میں ترجمہ کی قید محض اتفاقی ہے، احترازی نہیں۔ جزئیہ ملاحظہ ہو:

”قدمنا حکایۃ الاجماع علی منع کتابۃ القرآن العظیم بالفارسیۃ، وانہ انما نص علی الفارسیۃ، لافادۃ المنع بغیرھا بطریق الاولی، لان غیرھا لیس مثلھا فی الفصاحۃ“

ہم اس پر اجماع نقل کرچکے ہیں کہ فارسی میں قرآن پاک لکھنا ممنوع ہے۔ خاص فارسی زبان پر نص فرمانا یہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ اس کے علاوہ زبانوں میں ترجمہ کرنا بدرجہ اولی ممنوع ہوگا، کیونکہ کوئی اور زبان فصاحت میں اس کے مماثل نہیں۔ (مجموع رسائل شرنبلالیۃ، النفحۃ القدسیۃ فی احکام قراءۃ القرآن وکتابتہ بالفارسیۃ، ج01، ص458، دار اللباب)

یہود و نصاری نے تراجم كے ذریعے بھی توریت وانجیل میں تحریفیں کی تھی، اس کے متعلق فتاوی رضویہ میں ہے: ”الحمد قرآن عظیم بحفظ الٰہی عزوجل ابدالآباد تک محفوظ ہے تحریف محرفین وانتحال منتحلین کو اس کے سراپردہ عزت کے گردبار ممکن نہیں لایاتیہ الباطل من بین یدیہ ولامن خلفہ (باطل اس کے آگے اور پیچھے سے نہیں آسکتا۔ ت)

حمد اس کے وجہ کریم کو جس نے قرآن اتارا اور اس کا حفظ اپنے ذمہ قدرت پررکھا انا نحن نزلنا الذکر وانّا لہ لحٰفظون (ہم ہی نے قرآن پاک کو اتارا اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں۔ ت)

توریت وانجیل کچھ تو ملعون احباروں نے اپنے اغراض ملعونہ سے روپے لے کر اپنے مذہب ناپاک کے تعصب سے قصداً بدلیں اور کچھ ایسے ہی ترجمہ کرنے والوں نے اس خلط وخبط کی بنیادیں ڈالیں، مرورزماں کے بعد وہ اصل و زیادت مل ملاکر سب ایک ہوگئیں، کلام الٰہی وکلام بشر مختلط ہو کر تمیز نہ رہی۔ الحمد نفس قرآن میں اگرچہ یہ امر محال ہے تمام جہان اگر اکٹھا ہو کر اس کا ایک نقطہ کم بیش کرناچاہے ہر گز قدرت نہ پائے مگر ترجمہ سے مقصود ان عوام کو معانی قرآن سمجھانا ہے جو فہم عربی سے عاجز ہیں خطوط ہلالی نقول و درنقول خصوصاً مطابع مطابع میں ضرور مخلوط و نامضبوط ہو کر نتیجہ یہ ہوگا کہ دیکھنے والے عوام اصل ارشاد قرآن کو اس مترجم کی زیادت سمجھیں گے اور مترجم کی زیادات کو رب العزۃ کا ارشاد یہ باعث ضلال ہوگا اور جو امر منجربہ ضلال ہو اس کی اجازت نہیں ہوسکتی اسی لئے علماء مترجمین نے ترجمہ کا یہی دستور رکھا کہ بین السطور میں صرف ترجمہ اور جو فائدہ زائدہ ایضاح ِمطلب کے لئے ہو ا وہ حاشیہ پرلکھا انہیں کی چال چلنی چاہئے۔ وباﷲ التوفیق، وﷲ تعالٰی اعلم۔ (فتاوی رضویہ، ج23، ص678-679، رضا فاؤنڈیشن لاھور)

عجمی اقوام تک پیغام قرآنی پہنچانے کا ذریعہ یہی رہا ہے کہ ان تک نظم عربی پہنچایا جاتا رہا ہے نہ کہ محض ترجمہ۔ نیز سورہ فاتحہ کا ترجمہ کرکے اہل فارس کی طرف بھیجنے کی جو روایت ملتی ہے، اس پر کلام کرتے ہوئے شیخ الاسلام مصطفی صبر ی رحمۃ اللہ تعالی علیہ لکھتے ہیں:

”وقد وسع علم الآمر ان لغۃ القرآن عربیۃ وان المسلمین شعوب فلم یقل ھذاللعرب وللاعاجم التراجم ولم یسمع فی عصر النبی ولا فی عصر الخلفاء الراشدین ولا التابعین اختیار التراجم لغیر العرب الا ما یروی عن ترجمۃ سلمان الفاتحہ ولم یمکث علیھا الفرس الا ریثما استلانت السنتھم کما شھدت بہ الروایۃ نفسھا علی تقدیر صحتھا فاین ترجمۃ الفاتحۃ واین ترجمۃ القرآن بالفارسیۃ فلینظر من ترجمۃ سلمان بواسطۃ روایۃضعیفۃ ثم لیقایس بینہ و بین وصول القرآن وطریق وصولہ الی شعوب المسلمین وتوارثھم ایاہ سلفا بتواتر متواصل ولیفھم ان ترجیحہ التراجم علی القرآن للاعاجم لا یتفق وھذا التوارث المتصل طرقہ بعصر النبی واصحابہ“

حکم دینے والے(یعنی اللہ رب العزت) کا علم اس بات کو محیط تھا کہ قرآن کی لغت عربی ہے جبکہ مسلمانوں کی کئی قومیں ہیں(جن کی زبانیں عربی نہیں)، اس کے باوجود ا س نے یہ نہیں فرمایا کہ عربی نظم والا قرآن عربیوں کے لئے ہے اور عجمیوں کے لئےتراجم ہیں۔ اور نہ ہی سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، خلفائے راشدین اور تابعین کے زمانوں میں عجمی لوگوں کے لئے تراجم اختیار کرنا سناگیا، سوائے اس روایت کہ جو حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کے حوالے سے سورہ فاتحہ کے ترجمے کے بارے میں منقول ہے، تو اس میں بھی فارسیوں نے اس ترجمہ پر اس وقت تک ہی اکتفا کیا جب تک کہ ان کی زبانیں (عربی تلفظ و قراءت پر) عادی نہ ہوگئیں، جیسا کہ خود روایت میں اس بات کی گواہی موجود ہے، اگر اس روایت کو صحیح تسلیم کر بھی لیا جائے تو کہاں سورہ فاتحہ اور کہاں پورے قرآن کا ترجمہ۔ ایک طرف حضرت سلمان رضی اللہ تعالی عنہ کے سورہ فاتحہ کا ترجمہ کرنے کو دیکھے اور پھراس کا موازنہ اس بات سے کرےکہ امت مسلمہ کے دیگر اقوام تک قرآن کس طرح پہنچا، اور امت نے اسے کس طرح نسل در نسل، پیہم تواتر کے ساتھ حاصل کیا۔ اس سے یہ بات سمجھ آجائے گی کہ عجمیوں کے لیے تراجم کو اصل قرآن پر ترجیح دینا، اس متواتر طریقہ کار کے خلاف ہےجو براہ راست عہدِ نبوی و صحابہ کرام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ورضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین سے چلا آرہا ہے۔ (مسئلۃ ترجمۃ القرآن، ص18-19، مطبوعہ قاھرۃ)

جب مصلحت اور مفسدہ میں تعارض ہوجائے تو ترجیح مفسدہ کو دی جاتی ہے، اس اصول کے متعلق غمز عیون البصائر میں ہے:

”فإذا تعارضت مفسدة ومصلحة قدم دفع المفسدة غالبا؛ لأن اعتناء الشرع بالمنهيات أشد من اعتنائه بالمأمورات، ولذا قال عليه السلام إذا أمرتكم بشيء فأتوا منه ما استطعتم، وإذا نهيتكم عن شيء فاجتنبوه، ومن ثم جاز ترك الواجب دفعا للمشقة، ولم يسامح في الإقدام على المنهيات“

جب مفسدہ اور مصلحت میں تعارض ہوجائے تو اکثر جانب مفسدہ کو ترجیح ہوا کرتی ہے، کیونکہ شریعت کی توجہ مامورات کو بجا لانے کے مقابلے منہیات سے روکنے پر زیادہ ہے۔ اسی وجہ سے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جب میں تمہیں کسی چیز کا حکم دوں توحسب استطاعت اسے بجا لاؤ، لیکن جب کسی کام سے منع کروں، تو بہر حال اس سے بچو۔ یہی وجہ ہے کہ بسا اوقات دفع حرج کے لئے واجب کے ترک کی اجازت ہوتی ہے لیکن ممنوع کام کرنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ (غمز عیون البصائر، 01، ص290، دار الكتب العلمية)

شیخ مصطفی صبری علیہ الرحمۃ ممانعت کے ہی اسلم اور مصلحت پرمبنی ہونے کے متعلق لکھتے ہیں

”ان مذھب المنع اسلم واحمی لمصلحۃ الاسلام“

ممانعت کا حکم ہی اسلم اور حفاظتِ مصلحت ِاسلام کے موافق ہے۔ (مسئلۃ ترجمۃ القرآن، ص18-19، مطبوعہ قاھرۃ)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: HAB-0618

تاریخ اجراء: 10صفر المظفر1447ھ/05اگست2025ء