Dewar Maut Hai Hadees Ki Sharah

 

"دیور موت ہے" حدیث کی شرح

مجیب:مولانا عبدالرب شاکر عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-3534

تاریخ اجراء: 02شعبان المعظم 1446ھ/01فروری2025ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

     دیور موت ہے ، اس حدیث کی شرح بتادیں۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   اس کامطلب ہے کہ دیورکے ساتھ بے پردگی کرناموت کی طرح ہلاکت خیزہے کہ  عمومادیورکے ساتھ اس طرح کااجنبی پن نہیں ہوتا جیسے غیروں کے ساتھ ہوتا ہے تواس کے ساتھ بے پردگی کرنے کی صورت میں فتنے میں پڑنے کااندیشہ   زیادہ ہوتاہے ،لہذاجس طرح موت کے اسباب سے اپنے آپ کوبچانے کی کوشش کی جاتی ہے ،اسی طرح دیورکے ساتھ بے پردگی  سے بھی اپنے آپ کوبچانے کی کوشش کرنی چاہیے۔

   حدیث پاک میں ہے” عن عقبة بن عامر: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «إياكم والدخول على النساء» فقال رجل من الأنصار: يا رسول الله، أفرأيت الحمو؟ قال: «الحمو الموت» ترجمہ : حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:عورتوں کے پاس جانے سے بچو!تو انصار میں سے ایک آدمی نے عرض کی:یا رسول اللہ !دیور کے متعلق آپ کیا فرماتے ہیں؟تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”دیور تو موت ہے۔(صحیح بخاری،رقم الحدیث 5232،ج 7،ص 37،دار طوق النجاۃ)

   مذکورہ حدیث پاک کے تحت مرقاۃ المفاتیح میں ہے” (قال الحمو الموت) أي دخوله كالموت مهلك يعني الفتنة منه أكثر لمساهلة الناس في ذلك وهذا على حد الأسد الموت والسلطان النار أي قربهما كالموت والنار أي فالحذر عنه كما يحذر عن الموت“ترجمہ:(دیور تو موت ہے)یعنی دیور کا عورت کے پاس  جانا تو موت کی طرح مہلک ہے  یعنی فتنے اکثر اس سے ہوتے ہیں کیو نکہ لوگ اس کے معاملے میں نرمی برتتے ہیں ،اور یہ اس نہج پر ہے کہ" شیر موت ہے" اور "سلطان آگ ہے"یعنی ان کے قریب ہونا موت و آگ کی طرح ہے ،پس ان سے بچا جائے جیسا کہ موت سے بچا جاتا ہے۔(مرقاۃ المفاتیح،ج 5،ص 2051، دار الفكر، بيروت)

   مفتی احمد یار خان نعیمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1391ھ/1971ء)مذکورہ حدیث پاک کی شرح میں لکھتےہیں:”بھاوج کا دَیْوَر (سے)بے پردہ ہونا موت کی طرح باعث ِ ہلاکت ہے، یہاں مرقات نے فرمایا کہ حَمْوسے مراد صرف دیور یعنی خاوند کا بھائی ہی نہیں، بلکہ خاوند کے تمام وہ قرابت دار مراد ہیں جن سے نکاح درست ہے، جیسے خاوند کا چچا، ماموں ، پھوپھا وغیرہ۔ اسی طرح بیوی کی بہن یعنی سالی اور اس کی بھتیجی، بھانجی وغیرہ سب کا یہ ہی حکم ہے۔ خیال رہے کہ دیور کو موت اس لئے فرمایا کہ عادۃً بھاوج دیور سے پردہ نہیں کرتیں، بلکہ اس سے دل لگی، مذاق بھی کرتی ہیں اور ظاہر ہے کہ اجنبیہ غیر محرم سے مذاق دل لگی کس قدر فتنہ کا باعث ہے، اب بھی زیادہ فتنہ دیور، بھاوج اور سالی، بہنوئی میں دیکھے جاتے ہیں۔“(مرآۃ المناجیح، ج 5، ص 14، نعیمی کتب خانہ، گجرات)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم