
مجیب:مولانا فرحان احمد عطاری مدنی
فتوی نمبر:Web-2014
تاریخ اجراء:04 ربیع الآخر 1446 ھ/08 اکتوبر 2024 ء
دار الافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
ایک شخص کا کہنا یہ ہے کہ اگر زندگی اور موت اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے اور اس میں کوئی شک بھی نہیں،تو پھر انسان اپنے لیے سیکورٹی گارڈ وغیرہ حفاظتی اقدامات کیوں کرتا ہے؟ کیا اس کو اللہ پر توکل ویقین نہیں؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
بے شک زندگی اور موت اللہ عزوجل کے دستِ قدرت میں ہے مگراس کے باوجود ہم کھاناکھاتے ہیں، رزق حلال کے لیے جستجوکرتے ہیں، بیمارپڑ جائیں تو دوا استعمال کرتے ہیں یونہی بے تحاشاظاہری اسباب اختیارکرتے ہیں، اوران سب چیزوں کے احکام ہمیں اللہ عزوجل اور اس کے پیارے نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے بتائے ہیں لہٰذا جب کسی کی جان کو خطرہ ہوتو اسے سیکورٹی گارڈ اوردیگراقدامات ضرور کرنے چاہییں۔ اپنی جان کی حفاظت کے لیے گارڈ رکھنا توکل کے ہرگزخلاف نہیں۔
قرآنِ عظیم میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ”یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا خُذُوْا حِذْرَكُمْ فَانْفِرُوْا ثُبَاتٍ اَوِ انْفِرُوْا جَمِیْعًا(71)“ ترجمۂ کنز العرفان: اے ایمان والو! ہوشیاری سے کام لو پھر دشمن کی طرف تھوڑے تھوڑے ہوکر نکلو یا اکٹھے چلو۔ (سورۂ نساء، آیت 71)
اس کے تحت تفسیر صراط الجنان میں ہے: ”اللہ عَزَّوَجَلَّ کا کروڑ ہا کروڑ احسان ہے کہ اس نے ہمیں زندگی کے کسی بھی شعبے میں اپنے احکام سے محروم نہیں رکھا بلکہ ہر جگہ ہماری رہنمائی فرمائی۔ ماں باپ، بیوی بچے، رشتے دار، پڑوسی، اپنے بیگانے سب کے متعلق واضح ہدایات عطا فرمائیں۔ اسی سلسلے میں ہماری بھلائی کیلئے ہمیں ہوشیار رہنے کا حکم دیا اور فرمایا کہ دنیا کے دیگر معاملات کی طرح دشمنوں کے مقابلے میں بھی ہوشیاری اور سمجھداری سے کام لو، دُشمن کی گھات سے بچو اور اُسے اپنے اوپر موقع نہ دو اور اپنی حفاظت کا سامان لے رکھو پھر موقع محل کی مناسبت سے دشمن کی طرف تھوڑے تھوڑے ہوکر نکلو یا اکٹھے چلو یعنی جہاں جو مناسب ہو امیر کی اطاعت میں رہتے ہوئے اور تجربات و عقل کی روشنی میں مفید تدبیریں اختیار کرو۔ یہ آیت ِ مبارکہ جنگی تیاریوں، جنگی چالوں، دشمنوں کی حربی طاقت کے اندازے لگانے، معلومات رکھنے، ان کے مقابلے میں بھرپور تیاری اور بہترین جنگی حکمت ِ عملی کے جملہ اصولوں میں رہنمائی کرتی ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اسباب کا اختیار کرنا بھی نہایت اہم ہے۔ بغیر اسباب لڑنا مرنے کے مُتَرادِف ہے، تَوَکُّل ترک ِ اَسباب کا نام نہیں بلکہ اسباب اختیار کرکے امیدیں اللہ عَزَّوَجَلَّ سے وابستہ کرنے کا نام ہے۔“ (تفسیر صراط الجنان، جلد2، صفحہ 247، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
امامِ اہلسنت شاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فتاویٰ رضویہ میں فرماتے ہیں: ”نظر مسبب جل و علا پر رکھ کر جائز اسبابِ رزق کا اختیار کرنا ہرگز منافیِ توکل نہیں ، توکل ترکِ اسباب کا نام نہیں بلکہ اعتماد علی الاسباب کا ترک (توکل) ہے۔ حدیث میں ہے :نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں: اعقلھا وتوکل علی اللہ۔ بر توکل پائے اشتر را ببند ، اونٹ کو باندھ کر اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کیجئے۔(ت)“ (فتاوی رضویہ، جلد 24، صفحہ 379، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
لہٰذا جو شخص اپنی حفاظت کے لیے سیکورٹی گارڈ رکھے لیکن سیکورٹی گارڈ رکھنے کے باوجوداللہ عزوجل ہی کی ذات پر بھروسہ رکھے، تو یقیناًیہ شخص توکل کرنے والاہے ، اس پر بے جااعتراض کرناعقل مندی نہیں۔
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
قرآن خوانی میں بلند آواز سے تلاوت کرنا کیسا ہے؟
قرآن کریم میں مشرق اور مغرب کے لیے مختلف صیغے کیوں بولے گئے؟
کیا تلاوت قرآن کے دوران طلباء استاد کے آنے پرتعظیماً کھڑے ہو سکتے ہیں؟
قرآن کریم کو رسم عثمانی کے علاوہ میں لکھنا کیسا؟
عصر کی نماز کے بعد تلاوت کا حکم
لیٹ کر قرآن پڑھنا کیسا ؟
قرآ ن خوانی کے بعد کھانا یا رقم لینا دینا کیسا ؟
قرآن پاک کو تصاویر والے اخبار کے ساتھ دفن کرنا کیسا ؟