عصر کی نماز چھوڑنے سے اعمال برباد ہونے کا مطلب؟

جس نے عصر کی نماز چھوڑی اس کے اعمال برباد ہوگئے۔ حدیث کی شرح

مجیب:مولانا محمد سعید عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-3572

تاریخ اجراء:19شعبان المعظم1446ھ/18فروری2025ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   ہرنماز کوچھوڑنے سے تمام اعمال برباد ہوجاتے ہیں یا صرف عصر کی نماز چھوڑنے سے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   صحیح بخاری وغیرہ کتب احادیث میں یہ روایت موجود ہے کہ’’ جس نے عصر کی نماز چھوڑی اس کے اعمال برباد ہوگئے۔‘‘ اعمال کی بربادی کفرکی وجہ سے ہوتی ہے اورظاہر ہے کہ نماز سستی کی وجہ سے نہ پڑھنا کفرنہیں بلکہ گناہ عظیم ہے۔ مذکورہ حدیث  اپنے ظاہری معنی پر نہیں  بلکہ وعید شدید کے طور پر فرمایا گیا تاکہ لوگوں پر نماز عصر کی اہمیت و عظمت کا اظہار ہو۔

   اب رہا یہ کہ مذکورہ وعید صرف عصر کے ساتھ خاص ہے یا تمام نمازوں کو شامل ہے، تو اس بارے میں دونوں اقوال موجود ہیں۔

   حضرت ابو الملیح  رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”من ترك صلاة العصر فقد حبط عمله“ ترجمہ: جس نے عصر کی نماز چھوڑی، اس کے اعمال برباد ہوگئے۔(صحیح البخاری، ج 01، ص 115، رقم الحدیث 553، دار طوق النجاة)

   علامہ جلال الدین سیوطی علیہ الرحمہ فرماتےہیں: ”(حبط عمله): هو خارج مخرج الجر الشديد، و ظاهره غير مراد“ ترجمہ: مذکورہ   وعید تہدید شدید کے طور پر وارد ہوئی ہے اور اس کا ظاہر مراد نہیں۔(التوشیح شرح الجامع الصحیح للسیوطی، ج 02، ص 602، مكتبة الرشد، الرياض)

   علامہ بد ر الدین عینی علیہ الرحمۃ  لکھتے ہیں: أن الجمهور تأولوا الحديث فافترقوا على فرق۔۔۔ وأقرب الوجوه في هذا ما قاله ابن بزيزة: إن هذا على وجه التغليظ، و إن ظاهره غير مرادترجمہ: جمہور نے مذکورہ حدیث کی تاویل کی اور متعدد  اسلوب اپنائے، سب سے بہتر تاویل  ابن بزیزہ کی ہے کہ  یہ سختی  کے طور پر  وارد ہوئی ہے، اور اس کا ظاہر مراد نہیں ہے۔(عمدۃ القاری، ج 5، ص 40، دار إحياء التراث العربي، بيروت)

   فیوض الباری میں ہے"حبط عمل کفر کی وجہ سے ہوتاہے اور ظاہر ہے کہ صرف عصر کی نماز بوجہ سستی نہ پڑھنا کفر نہیں ہے بلکہ گناہ عظیم ہے تو حدیث میں حبط عمل محض وعید شدید کے طور پر فرمایا گیا تاکہ لوگوں پر نماز عصر کی اہمیت وعظمت کا اظہار ہو۔"(فیوض الباری، ج 02، ص 245، نشان منزل پیلی کیشنز)

   مذکورہ وعید صرف عصر کے ساتھ خاص ہے، تمام نماز وں کو شامل نہیں، اس حوالے سےکوثر الجاری میں ہے: ”فإن قلت: هل حكم سائر الصلوات حكم العصر أم لا؟ قلت: الظاهر أن هذا مخصوص بالعصر؛ لأنها الصلاة الوسطى، و إن شاركتها سائر الصلوات في مطلق الوعيد“ ترجمہ: اگر تو کہے کہ تمام نمازوں کا حکم عصر کے حکم کی طرح ہے یا نہیں؟ تو میں کہتا ہوں کہ بظاہر یہ وعید صرف عصر کے ساتھ خاص ہے کیونکہ عصر، صلاۃ وسطی ہے، اگرچہ تمام نمازیں مطلق وعید میں عصر کے ساتھ شریک ہیں۔(الکوثر الجاری الی ریاض احادیث البخاری، ج 02، ص 223، دار إحياء التراث العربي، بيروت)

   مذکورہ وعید تمام نمازوں کے لئے ہے، اس حوالے سے  المسالک فی شرح مؤطا مالک میں ہے ”وربما توهم أن قوله: من ترك صلاة العصر حبط عمله»مزية لها على غيرها، وهو وهم؛ لأن من ترك صلاة المغرب حبط عمله على الوجه الذي يحبط بترك صلاة العصر، و كذلك بترك سائر الصلوات“ ترجمہ: بسا اوقات یہ وہم ڈالا جاتا ہے کہ نبی کریم علیہ الصلاۃ والسلام کا فرمان "جس نے عصر کی نماز چھوڑی ،اس کے اعمال برباد ہوگئے" عصر کے ساتھ خاص ہے،دوسری نمازوں کے لئے نہیں، تو یہ صرف وہم ہی ہے کیونکہ جس نے مغرب کی نماز چھوڑی اس کے بھی اعمال یونہی برباد ہوں گے جیسے عصر کی نماز چھوڑنے سے ہوتے ہیں ،یونہی تمام نمازیں چھوڑنے سے ہوں گے۔(المسالك في شرح موطأ مالك، ج 03، ص 57، دَار الغَرب الإسلامي)

   المفہم میں ہے: ”قال الداودي: ليس ذلك خاصًّا بالعصر، بل ذلك حكم غيرها من الصلوات“ ترجمہ: داودی نے کہاکہ یہ حکم عصرکے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ یہ عصرکے علاوہ دوسری نمازوں کابھی حکم ہے۔(المفھم للقرطبی، ج 02، ص 252، دار ابن كثير، دمشق، بيروت)

   ابن ملقن لکھتے ہیں: ذلك مقول في سائر الصلوات، فلا مزية إذا.قد ورد من حديث عمر مرفوعا: من ترك صلاة متعمدا أحبط الله عمله، وبرئت منه ذمة الله تعالى حتى يراجع لله توبة“ ترجمہ: یہ حکم دوسری نمازوں کے لیے بھی واردہے تواس اعتبارسے اس معاملے میں عصرکی کوئی خاص فضیلت نہیں ہے، حضرت عمررضی اللہ تعالی عنہ سے مرفوعامروی ہے کہ :جس نے کوئی نمازچھوڑی اللہ تعالیٰ نے اس کے عمل کوبربادکردیااوراس سے اللہ تعالیٰ کاذمہ بری ہوگیایہاں تک کہ وہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں توبہ کرے۔(التوضیح لشرح الجامع الصحیح، ج 06، ص 185- 186، دار النوادر، دمشق)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم