
دارالافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
سوال
میں نے سناہے کہ علماء ،انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کے وارث ہیں ، کیا یہ حدیث ہے ؟وارث ہیں تو کون سے علماء ہیں ؟کس طریقے کے علماء ہیں ؟
جواب
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جی ہاں ! یہ حدیث پاک کئی کتب حدیث میں موجود ہے ۔ ایسے علماء کو ہی انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کا وارث قرار دیا گیا ہے جو سنی صحیح العقیدہ ہوں اور سیدھے راستے کی طرف بلاتے ہوں، یہ قید اس لئے ہے کہ جو عقائد میں صحیح نہیں اور دوسروں کو غلط عقائد کی طرف بلانے والا ہے ، وہ خود بھی گمراہ اور دوسروں کو گمراہ کرنے والا ہے ، ایسا شخص نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وارث نہیں ،بلکہ شیطان کا نائب ہوتا ہے ۔
مذکورہ حدیث پاک کئی کتب حدیث میں موجود ہے،چنانچہ سنن الترمذی(رقم الحدیث:2682) اور ابن ماجہ(رقم الحدیث:223) اور صحیح ابن حبان(رقم الحدیث:88)اور کنز العمال(رقم الحدیث:28679)اور الآداب للبيهقي(رقم الحدیث:862) اور سنن ابی داؤد میں ہے :
" وإن العلماء ورثة الأنبياء، وإن الأنبياء لم يورثوا دينارا، ولا درهما ورثوا العلم"
یعنی بے شک علماء،انبیاء کے وارث ہیں اور بے شک انبیاء درہم و دینار کا وارث نہیں بناتے بلکہ وہ علم کا وارث بناتے ہیں ۔ (سنن ابی داؤد، رقم الحدیث 3641،ج 3،ص 317، مطبوعہ بيروت)
اسی حدیث کے بارے میں اعلی حضرت امام اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خاں علیہ الرحمہ سے فتاوی رضویہ میں سوال ہے کہ زید کہتا ہے اس حدیث کے مصداق علمائے شریعت وطریقت دونوں ہیں جبکہ عمرو کہتا ہے صرف علمائے طریقت مصداق ہیں ،ملخصاً۔
تو آپ نے جوابا ارشاد فرمایا:" زید کا قول حق وصحیح اور عمرو کا زعم باطل قبیح والحاد صریح ہے۔۔۔ قرآن شریف انھیں مطلقاً وارث بتارہاہے حتی کہ ان کے بے عمل کو بھی یعنی جبکہ عقائد حق پر مستقیم اور ہدایت کی طرف داعی ہو کہ گمراہ اور گمراہی کی طرف بلانے والا وارث نبی نہیں نائب ابلیس ہے والعیاذ باللہ تعالٰی۔ ہاں رب عزوجل نے تمام علماء شریعت کو کہاں وارث فرمایا ہے یہاں تک کہ ان کے بے عمل کو بھی، ہاں وہ ہم سے پوچھئے، مولٰی عزوجل فرماتا ہے:
ثُمَّ اَوْرَثْنَا الْكِتٰبَ الَّذِیْنَ اصْطَفَیْنَا مِنْ عِبَادِنَاۚ-فَمِنْهُمْ ظَالِمٌ لِّنَفْسِهٖۚ-وَ مِنْهُمْ مُّقْتَصِدٌۚ-وَ مِنْهُمْ سَابِقٌۢ بِالْخَیْرٰتِ بِاِذْنِ اللّٰهِؕ-ذٰلِكَ هُوَ الْفَضْلُ الْكَبِیْرُ"
ترجمہ:پھر ہم نے کتاب کا وارث کیااپنے چنے ہوئے بندوں کو تو ان میں کوئی اپنی جان پر ظلم کرنے والا ہے اور کوئی متوسط حال کا اور کوئی بحکم خدا بھلائیوں میں پیشی لے جانے والا یہی بڑا فضل ہے۔دیکھوبے عمل کہ گناہوں سے اپنی جان پر ظلم کررہے ہیں انھیں بھی کتاب کا وارث بتایا اور نرا وارث ہی نہیں بلکہ اپنے چنے ہوئے بندوں میں گنا ۔" (فتاوی رضویہ،ج 21،ص 521،523،530،531،رضا فاؤنڈیشن،لاہور)
مزید تفصیل کے لئے اعلی حضرت امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ کے فتاوی رضویہ کی اکیسویں جلد میں موجود رسالے کا مطالعہ فرمالیں ۔ جس کا نام " مقال العرفاء با عزاز شرع و علماء" ہے ۔
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مولانا محمد ابوبکر عطاری مدنی
فتوی نمبر:WAT-3867
تاریخ اجراء:28ذوالقعدۃ الحرام1446ھ/26مئی2025ء