کسی کے گھر جھانکنے کا حکم اور حدیث کی تشریح

کسی کے گھر جھانکنے کا حکم اور ایک حدیث پاک کی شرح

مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر:HAB-0500

تاریخ اجراء:26 رجب المرجب 1446 ھ/ 27 جنوری 2025 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ ایک پوسٹ وائرل کی گئی ،جس کی ہیڈنگ میں لکھا تھا ”کسی کے گھر میں  جھانکنے کی مذمت“ پھر اس  میں صحیح بخاری شریف کے حوالے سے یہ فرمانِ مصطفٰی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم لکھا تھا   ”اگر کوئی شخص تیرے گھر میں (کسی سوراخ  وغیرہ سے) تم سے اجازت لئے بغیر جھانک رہا ہو اور تم اسے کنکری مارو جس سے اس کی آنکھ پھوٹ جائے تو تم پر کوئی گناہ نہیں ہے“

   مجھے یہ پوچھنا ہے کہ کیا یہ حدیث یا  اس طرح کی کوئی حدیث بخاری میں موجود ہے؟ اور اگر ہے تو اس کا  ظاہری معنیٰ  جو سمجھ آرہا ہے، یعنی کسی کو کنکر یا کوئی چیز آنکھ پر مارنا! تو کیا  یہی مراد ہے؟ برائے کرم اس حوالے  سے آگاہ فرمائیں۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   اسلام ایک کامل دینِ فطرت ہے، یہ جس طرح عبادات اور اس کے طریقوں کی رہنمائی کرتا ہے، ٹھیک اسی طرح زندگی کے دیگر معاملات، اخلاقیات اور آداب معاشرت  بھی سکھاتا ہے، انہیں میں سے  ایک اہم تعلیم  ”کسی کے گھر میں دیکھنے سے پہلے اس کو مطلع کرنا اور اس کی  اجازت حاصل کرلینا“ بھی ہے، اس کی وجہ  ہر عقلمند پر واضح ہے کہ انسان اپنے گھر میں  کبھی  بے تکلفی کی حالت میں ہوتا ہے  اور اتنا خاص پردے کا کوئی اہتمام نہیں کرتا، جتنا وہ جلوت میں کرتا ہے، لہٰذا  اگر کوئی اچانک گھر میں دیکھے گایاداخل ہوگا تو گھر والوں کے ستر پر نظر پڑنے  اور بے پردگی ہونے کا قوی اندیشہ ہے، اسی  لئے   کسی کے گھر میں بلا وجہ شرعی  اس کی اجازت کے بغیر   جان بوجھ کر جھانکنا  شرعاً ممنوع ہے۔ اس حوالے سےاحادیث طیبہ میں واضح تعلیمات موجود ہیں اور سوال میں ذکرکردہ حدیث پاک  آدابِ معاشرت کی انہیں تعلیمات کے سلسلے کی ایک کڑی ہے، جو  مختلف الفاظ کے ساتھ صحیح بخاری شریف سمیت متعدد کتب احادیث میں موجود ہے۔

   لیکن یہاں یہ یاد رہے کہ  بسا اوقات احادیث مبارکہ میں کسی    فعل کی قباحت و شناعت  کی شدت کو ظاہر کرنے کے لیے سخت ممانعت اور ڈانٹ  والے الفاظ ذکر کیے جاتے ہیں، جن سے ان کا ظاہری معنیٰ و مفہوم مراد نہیں ہوتا بلکہ  مقصود یہ ہوتا ہے کہ لوگ  ان سخت الفاظ  کو سن کر اس فعل شنیع کی برائی کو سمجھیں اور اس سے باز رہیں، انہیں احادیث مبارکہ میں سے ایک سوال میں ذکر کردہ حدیث پاک ہے، جس کا مقصود ہر گز یہ  نہیں ہے کہ اگر کوئی کسی کے گھر میں بلا اجازت جھانکے تو اس کی آنکھ میں کنکر یا کوئی چیز مارکر  اس کی آنکھ پھوڑ دی جائے کہ یہ تو شرعًا خود ممنوع ہے، بلکہ حضور پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا یہ فرمان سخت ممانعت فرمانے اور ڈانٹ ڈپٹ کیلئے ہے یعنی حضور پاک صلی اللہ علیہ و سلم نے اس طرح  سخت انداز میں اس لئے ممانعت فرمائی تاکہ  لوگ اس  فعل شنیع کی قباحت  کو سمجھیں  اور اس کو سمجھ کر اس فعل سے باز رہیں، لہٰذا  اس حدیث پر   یوں تو  عمل کیا جائے گا کہ لوگوں کے گھروں میں بلا اجازت جھانکنے والے کو سختی  سے روکا جائے، لیکن آنکھ پھوڑنا یا اس کو قتل کرنا، اس کی بہرحال  اجازت نہیں۔

کسی کے گھر میں بلا اجازت جھانکنے کی مذمت سے متعلق احادیث طیبہ:

   صحیح بخاری شریف میں ہے :”عن أبي هريرة، قال: قال أبو القاسم صلى الله عليه و سلم: «لو أن امرأ اطلع عليك بغير إذن فخذفته بعصاة ففقأت عينه، لم يكن عليك جناح“ ترجمہ: حضرت سیدنا ابو ہریرہ سے روایت ہے، کہتے ہیں کہ حضرت ابو القاسم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: اگر کوئی شخص تمہارے گھر میں تم سے اجازت لیے بغیر جھانک رہا ہو اور تم اسے کنکری مارو جس سے اس کی آنکھ پھوٹ جائے تو تم پر کوئی گناہ نہیں ہے۔(صحیح البخاری، ج 09،ص 11، دار طوق النجاۃ)

   صحيح مسلم شریف میں ہے :”عن ابن شهاب، أن سهل بن سعد الساعدي، أخبره أن رجلا اطلع في جحر في باب رسول الله صلى الله عليه وسلم، و مع رسول الله صلى الله عليه وسلم مدرى يحك به رأسه، فلما رآه رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «لو أعلم أنك تنتظرني لطعنت به في عينك» و قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إنما جعل الإذن من أجل البصر“ ترجمہ: امام  ابن شہاب سے مروی ہے، انہیں حضرت  سہل بن سعد الساعدی رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ ایک آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے دروازہ کے ایک سوراخ سے اندر جھانکنے لگا۔ اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس لوہے کا کنگھا تھا جس سے آپ سر میں کھجلی فرمارہے تھے۔ جب آپ نے اسے دیکھا تو فرمایا کہ اگر مجھے معلوم ہوتا کہ تم  مجھے دیکھ رہے ہو تو میں اسے تمہاری آنکھ میں چبھو دیتا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ طلبِ اجازت کا حکم  نگاہ کی حفاظت ہی کیلئے ہے۔(صحیح مسلم، ج 03، ص 1698، دار إحياء التراث العربي، بيروت)

   سنن ترمذی شريف میں ہے :”عن أبي ذر، قال: قال رسول الله صلى الله عليه و سلم: «من كشف سترا فأدخل بصره في البيت قبل أن يؤذن له فرأى عورة أهله فقد أتى حدا لا يحل له أن يأتيه، لو أنه حين أدخل بصره استقبله رجل ففقأ عينيه ما عيرت عليه، و إن مر الرجل على باب لا ستر له غير مغلق فنظر فلا خطيئة عليه، إنما الخطيئة على أهل البيت“ ترجمہ: حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: جس نے اجازت ملنے سےپہلے ہی پردہ ہٹا کر مکان کے اندر نظر کی اور گھر والوں کے سِتْر کو دیکھا، اُس نے ایسا کام کیا جو اُس کیلئے حلال نہ تھا، حتّٰی کہ اس کے دیکھنے کے وقت اگر کوئی بڑھ کر اُس کی آنکھ پھوڑ دیتا  تو اِس پر میں اُسے(یعنی آنکھ پھوڑنے والے کو)شرم نہ دِلاتا اور اگر کوئی ایسے دروازے کے پاس سے گزرا جس پرکوئی پردہ نہیں تھا اور وہ کھُلا ہوا بھی تھا، لہٰذا اُس نے(بِلاقَصد) دیکھا تو اُس پر گناہ نہیں بلکہ خطاگھر والوں کی ہے۔(سنن الترمذی، ج 05، ص 63، مطبعة مصطفى البابي الحلبي، مصر)

احاديثِ مذکورہ   کا معنی و مفہوم:

   عمدۃالقاری میں ہے :”إنما شرع الاستئذان  لأجل أن لا يقع البصر على عورة أهل البيت و لئلا يطلع على أحوالهم۔۔۔ و هذا مخصوص بمن تعمد النظر و إذا وقع ذلك منه من غير قصد فلا حرج عليہ“ ترجمہ: اجازت طلب کرنے کا حکم اس لئے ہے تاکہ   اس کی نگاہ گھر والوں  کے پردے کے مقامات پر نہ پڑجائے  اور اس لئے ہےتاکہ وہ ان کے احوال پر مطلع نہ ہو  اور یہ   ممانعت اس شخص کے ساتھ خاص ہے جو جان بوجھ کر نظر کرے  اور اگر کسی کی نظر  بغیر قصد پڑجائے تو حرج نہیں۔(عمدۃالقاری، ج 22، ص 239، دار احیاء  التراث العربی)

   پہلی اور دوسری حدیث کے تحت مرقاۃ  میں ہے :”الظاهر أنه محمول على إرادة الزجر و التغليظ، كما هو مذهب أبي حنيفة في الحديثين“ ترجمہ: ظاہر یہ ہے کہ یہ حدیث زجر و سختی کے ارادے پر محمول ہے  جیساکہ یہی دونوں حدیثوں میں امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا مذہب ہے۔(مرقاۃ المفاتیح، ج 06، ص 2298، دار الفکر، بیروت)

   مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الرحمۃ لکھتے ہیں :”بغیر اجازت کسی کے  گھر میں جھانکنا، وہاں بلا اجازت داخل ہوجانے کی طرح ہے، جیسے وہ ممنوع ہے ایسے ہی یہ ممنوع کہ اس میں گھر والوں کی بے پردگی ہے۔ اس عبارت سے معلوم ہورہا ہے کہ یہ فرمان عالی ڈانٹ ڈپٹ جھڑک کے لیے ہے آنکھ پھوڑ دینے کی اجازت کے لیے نہیں کیونکہ کسی کے گھر میں بلا اجازت چلے جانے پر اس کا قتل یا آنکھ پھوڑ دینا جائز نہیں کردیتا، جیسے جان جان کے عوض ہے ایسے ہی آنکھ آنکھ کے عوض۔“(مرآۃ المناجیح، ج 05، ص 252، نعیمی کتب خانہ)

   کتب فقہ میں سے تبیین الحقائق  اور رد المحتار میں ہے، و اللفظ للرد : ”وفي معراج الدراية: و من نظر في بيت إنسان من ثقب أو شق باب أو نحوه فطعنه صاحب الدار بخشبة أو رماه بحصاة ففقأ عينه يضمن عندنا. و عند الشافعي لا يضمن، لما روى أبو هريرة - رضي الله تعالى عنه - أنه - عليه الصلاة و السلام - قال «لو أن امرأ اطلع عليك بغير إذن فحذفته بحصاة و فقأت عينه لم يكن عليك جناح» .و لنا قوله - عليه الصلاة و السلام - «في العين نصف الدية» و هو عام، و لأن مجرد النظر إليه لا يبيح الجناية عليه كما لو نظر من الباب المفتوح و كما لو دخل بيته و نظر فيه لم يجز قلع عينه؛ لأن قوله - عليه الصلاة و السلام - «لا يحل دم امرئ مسلم» الحديث يقتضي عدم سقوط عصمته، و المراد بما روى أبو هريرة المبالغة في الزجر عن ذلك“ ترجمہ: اور معراج الدرایہ میں ہے کہ جس  نے کسی انسان کے گھر میں دیوار یا دروازہ کے سوراخ سے یا اس کے علاوہ کسی اور طریقے سے  جھانکا اور گھر والے نے اس کو لکڑی چبھو دی یا کوئی کنکر  پھینکا جس سے اس کی آنکھ پھوٹ گئی تو ہمارے نزدیک وہ ضامن ہوگا اور امام شافعی علیہ الرحمۃ کے نزدیک ضامن نہیں کیونکہ حضرت سیدنا ابو ہریرہ  رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت ابو القاسم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: اگر کوئی شخص تمہارے گھر میں تم سے اجازت لیے بغیر جھانک رہا ہو اور تم اسے کنکری مارو جس سے اس کی آنکھ پھوٹ جائے تو تم پر کوئی گناہ نہیں ہےجبکہ ہماری دلیل یہ ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام نے فرمایا کہ   آنکھ میں آدھی دیت ہے  اور یہ فرمان عام ہے  اور دوسری وجہ یہ ہے کہ صرف اس کے گھر میں دیکھنا اس پر جنایت کرنے کو مباح نہیں کرسکتا، جیسے کسی نے کھلے ہوئے دروازے سے دیکھا  اور جیسے کوئی اس کے گھر میں داخل ہوگیا اور  اس میں دیکھا   تو اس کی آنکھ پھوڑنا جائز نہیں، کیونکہ حضور علیہ السلام  کا ارشاد ”کسی مسلمان کا خون حلال نہیں۔۔ الخ  اس بات کا متقاضی ہے کہ اس کی عصمت ساقط نہیں ہوگی  اور جو حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے تو اس فعل سے روکنے میں مبالغہ پر محمول ہے۔(رد المحتار، ج 06، ص 550، دار الفکر -بيروت) (تبیین الحقائق، ج 06، ص 110، دار الفكر- بيروت)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم