مجیب:مولانا جمیل احمد غوری عطاری مدنی
فتوی نمبر:Web-1864
تاریخ اجراء:22صفر المظفر1446ھ/28اگست2024ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
قرآن پاک کو اصولِ تجوید سے پڑھنا کس قدر ضروری یا واجب ہے؟بعض لوگ کہتے ہیں تجوید سے پڑھنا ضروری نہیں۔
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
یہ کہنا کہ قرآن پاک کو تجوید سے پڑھنا ضروری نہیں یہ بات بے بنیاد اور قرآن و حدیث کے فرمودات کے خلاف ہے۔قرآن پاک کو تجوید کے ساتھ پڑھنابحکمِ قرآن و حدیث واجب و ضروری ہے اور علمائے کرام نےتجوید کے ساتھ قرآن پاک پڑھنے کی تین صورتیں بیان فرمائی جن کی تفصیل درج ذیل ہے:
(1)قرآن عظیم کی تلاوت اتنی آہستگی سےٹھہر ٹھہر کر کی جائے کہ تلاوت سننے والا اگرچاہے ، تو کلماتِ قرآن میں سے ہرکلمہ کو جدا جدا گن سکے۔نیزحروفِ قرآنیہ کو اُن کی تمام صفات شدّت و جہر و غیرہ کے حقوق پورے دئیے جائیں، اظہار ، اخفا ، تفخیم ، ترقیق وغیرہا محسنات کا لحاظ رکھا جائے۔اتنی مقدار میں تجوید کے ساتھ قرآن پاک کی تلاوت کرنا مسنون اور اس کو ترک کرنا اور چھوڑنا مکروہ و ناپسند عمل ہے۔
(2) مدووقف ووصل کے ضروریات اپنے اپنے مواقع پر ادا ہوں، کھڑا زبرکھڑا زیر و دیگر حرکات کا لحاظ رکھا جائے،کوئی حرف و حرکت بے محل دوسرے حرف یا حرکت کی شان اخذنہ کرے ،نہ کوئی حرف چھُوٹے، نہ کوئی اجنبی حرف پیدا ہو، نہ محدود ومقصور ہو، نہ ممدود۔ اتنی مقدار میں تجوید کے ساتھ قرآن پاک کی تلاوت کرنا فرض و واجب ہے اور اس کو ترک کرنے والا گنہگار ہے۔
(3)حروف وحرکات کی تصحیح ،ا ع،ت ط، ث س ص، ح ہ،ذ ز ظ وغیرہا میں تمیز(فرق)کرنا،غرض ہرطرح کی کمی، زیادتی اور تبدیلی جو معنی کو فاسد کر دےاس سے خود کو بچانا،یہ بھی فرض ہے۔
امام اہلسنت،اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:”تجوید بنصِ قطعی قرآن و اخبارِ متواترۂ سید الانس والجان علیہ وعلی آلہٖ افضل الصلوٰۃ والسلام واجماع تام صحابہ و تابعین وسائر ائمہ کرام علیہم الرضوان المستدام حق و واجب در علم دین شرع الہٰی ہے۔قال اللہ تعالٰی ﴿وَ رَتِّلِ الْقُرْاٰنَ تَرْتِیْلًا﴾(اﷲ تعالی کا فرمان ہے اور قرآن کو خوب ٹھہر ٹھہر کر پڑھو)“(فتاوی رضویہ،جلد6،صفحہ322،رضا فاؤنڈیشن،لاھور)
امامِ اہلسنت رحمۃ اللہ علیہ ایک اور مقام پر فرماتے ہیں:”ترتیل کی تین حدیں ہیں۔ ہر حد اعلیٰ میں اس کے بعد کی حد ماخوذ و ملحوظ ہے۔حد اوّل:یہ کہ قرآن عظیم ٹھہر ٹھہر کر بآہستگی تلاوت کرے کہ سامع چاہے تو ہر کلمے کو جدا جدا گِن سکے۔۔۔ الفاظ بہ تفخیم ادا ہوں، حروف کو ان کی صفات شدت و جہر وامثالہا کے حقوق پورے دئیے جائیں،اظہار و اخفا و تفخیم و ترقیق وغیرہا محسنات کا لحاظ رکھا جائے، یہ مسنون ہے اور اس کا ترک مکروہ و ناپسند۔دوم: مدووقف ووصل کے ضروریات اپنے اپنے مواقع پر ادا ہوں، کھڑے پڑے کا لحاظ رہے،حروف مذکورہ جن کے قبل نون یا میم ہوان کے بعد غنّہ نہ نکلے انّا کُنّاکو اِنَّ کُنَّ یا انّاں کنّاں نہ پڑھا جائے،باوجیم ساکنین جن کے بعد"ت"ہو بشدت ادا کیے جائیں کہ پ اور چ کی آواز نہ دیں، جہال جلدی میں ابتر اور تجتنبوا کو اپتر اور تچتنبوا پڑھتے ہیں، حروف مطبقہ کا کسرہ ضمہ کی طرف مائل نہ ہونے پائے۔ جہاں جب صراط وقاطعہ میں ص وط کے اجتماع میں مثلًا ”یستطیعون“ ”لاتطع“ بے خیالی کرنے والوں سے حرف تا بھی مشابہ طا ادا ہوتا ہے، بلکہ بعض سے”عتو“ میں بھی بوجہ تفخیم عین و ضمہ تا آوازمشابہ طا پیدا ہوتی ہے۔ بالجملہ کوئی حرف و حرکت بے محل دوسرے کی شان اخذنہ کرے، نہ کوئی حرف چُھوٹ جائے، نہ کوئی اجنبی پیدا ہو، نہ محدود ومقصود ہو نہ ممدود ، اس قدر ترتیل فرض و واجب ہے اور اس کا تارک گنہگار۔۔۔ سوم:جو حروف وحرکات کی تصحیح ا ع،ت ط، ث س ص، ح ہ،ذ ز ظ وغیرہا میں تمیز کرے۔ غرض ہر نقص و زیادت و تبدیل سے کہ مفسد معنی ہو احتراز یہ بھی فرض ہے۔“(ملتقط ازفتاوی رضویہ،جلد6،صفحہ275تا 281 ،رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
قرآن خوانی میں بلند آواز سے تلاوت کرنا کیسا ہے؟
قرآن کریم میں مشرق اور مغرب کے لیے مختلف صیغے کیوں بولے گئے؟
کیا تلاوت قرآن کے دوران طلباء استاد کے آنے پرتعظیماًکھڑے ہو سکتے ہیں؟
قرآن کریم کو رسم عثمانی کے علاوہ میں لکھنا کیسا؟
عصر کی نماز کے بعدتلاوت کا حکم
لیٹ کر قرآن پڑھنا کیسا ؟
قرآ ن خوانی کے بعد کھانا یا رقم لینا دینا کیسا ؟
قرآن پاک کو تصاویر والے اخبار کے ساتھ دفن کرنا کیسا ؟