Na Balaigh Bache Ki Tilawat e Quran Sunne Ka Hukum?

 

نابالغ بچے کی تلاوتِ قرآن سننے کا حکم؟

مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: Pin-7480

تاریخ اجراء:  20محر م الحرام 1446ھ27 جولائی  2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیافرماتےہیں علمائےدین ومفتیانِ شرعِ متین اس بارےمیں  کہ اگر نابالغ بچہ قرآن کریم کی تلاوت کر رہا ہو ، توکیا اس کی تلاوت کے بھی وہی احکام ہیں ، جو بالغ کی تلاوت کے ہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   نابالغ  بچہ اگر تلاوت قرآن کر رہا ہو، تو اس کی تلاوت سننے کے بھی وہی احکام ہیں ، جو بالغ کی تلاوت کے ہیں یعنی   اس کی تلاوت  کے وقت توجہ سے سننا  اور خاموشی اختیار کرنا  لازم ہے، اس وجہ سے کہ

   (1) جب تلاوت کی جا رہی ہو ،  تو استماع (خوب توجہ کے ساتھ  تلاوت سننے ) اور انصات (خاموش رہنے )کا حکم  مطلق ہے اور اصول ہے کہ مطلق اپنے اطلاق پر جاری ہوتا ہے، لہٰذا بلوغت  وغیرہ کسی بھی قید کےبغیر تلاوت سننے کے احکام یکساں ہوں گے ۔

   (2) تلاوتِ قرآن کے وقت   استماع و انصات  کا حکم قرآن کریم کی تعظیم کے لیے رکھا گیا ہے، لہٰذا نابالغ بچہ بھی تلاوت کرے، تو یہ  وجہ موجود ہے ، لہٰذا  بالغ کی  طرح نابالغ کی تلاوت کے وقت بھی  توجہ سے سننے  اور خاموش رہنے کا حکم ہو گا۔

   (3) فقہائے کرام نے اپنی کتب میں یہ مسئلہ ذکر فرمایا ہے کہ   چھوٹا بچہ  ایک جگہ تلاوت کر رہا ہو اور وہاں  موجود  لوگ اپنے اپنے  کام کاج میں مشغول ہوں، تو اگر اس کی تلاوت شروع کرنے سے پہلے وہ کام کر رہے تھے اور  بچے نے تلاوت بعدمیں شروع کی، تو لوگ گنہگار نہیں ہوں گے، اور اگر  وہ پہلے سے تلاوت کر رہا تھا اور لوگ وہاں بعد میں آئے اور اب تلاوت نہیں سنتے  اور کام  کاج میں لگے رہتے ہیں، تو وہ لوگ گنہگار ہوں گے۔  اس سےواضح طور پر  ثابت ہوتا ہے کہ نابالغ بچے کی تلاوت سننا بھی واجب ہے۔

   (4) نیز نابالغ کی تلاوت سننے پر وہ احکام مرتب ہوتے ہیں، جواحکام  بالغ کی تلاوت کے ہیں، اس کی ایک نظیر یہ بھی ہے  ، جسے فقہائے کرام نے سجدہ تلاوت کے باب میں ذکر کیا کہ اگر نابالغ قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہوئے آیتِ سجدہ کی  تلاوت کرے، تو مکلف نہ ہونے کی وجہ سے اس پر تو سجدہ تلاوت واجب نہیں ہو گا ، لیکن نماز کے اہل فرد نے اس سے تلاوت سنی ،تو اس پر سجدۂ تلاوت واجب ہو جائے گا  ۔

   مذکورہ دلائل سے  واضح ہوتا ہے  کہ نابالغ کی تلاوت کو سننے کے بھی وہی احکام ہیں، جوبالغ کی تلاوت سننے کے ہیں یعنی اس کی تلاوت سننا بھی واجب ہے، اگر بغیر عذر نہ سنیں، تو گناہ کا حکم ہو گا۔

بیان کردہ احکام کے جزئیات  مع الترتیب درج ذیل ہیں :

   تلاوت توجہ اور خاموشی سے سننے کا حکم ہےاور یہ حکم مطلق ہے  ۔ چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :﴿وَ اِذَا قُرِئَ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَهٗ وَ اَنْصِتُوْا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ ترجمہ کنز العرفان :’’اور جب قرآن پڑھا جائے، تو اسے غور سے سنو اور خاموش رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔‘‘(پارہ9، سورۃ الاعراف، آیت204)

   مذکورہ آیتِ مبارکہ کے تحت تفسیر مظہری میں ہے : ” وقال ابن ھمام :  فی کلام اصحابنا ما یدل علی وجوب الاستماع فی الجھر بالقراءۃ مطلقاً ،قال فی الخلاصۃ : رجل یکتب الفقہ و بجنبہ یقرا القرآن فلا یمکنہ استماع القرآن فالاثم علی القاری  و علی ھذا لو قرا علی السطح فی اللیل جھرا و الناس نیام یثم “ ترجمہ : علامہ ابن ہمام رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا : ہمارے اصحاب کے کلام وہ دلائل ہیں، جو  اونچی آواز سے قراءت ہونے کی صورت میں مطلقاً سننے کے وجوب پردلالت کرتے ہیں ۔خلاصہ میں فرمایا: ایک شخص فقہ کے مسائل لکھ رہا ہے اور اس کے پہلو میں موجود شخص قرآن کریم پڑھ رہا ہے  ،  فقہ لکھنے والے کے لیے  تلاوت سننا ممکن نہیں ، تو گناہ  پڑھنے والے پر ہو گااور اسی پر یہ (تفریع بھی) ہے کہ اگر کوئی شخص رات کے وقت چھت پہ بلند آواز سے قرآن پڑھ رہا ہو ، حالانکہ لوگ سوئے ہوئے ہوں، تو پڑھنے والا شخص گنہگار ہو گا ۔(تفسیر مظھری،ج3 ، ص 451، مطبوعہ کوئٹہ )

   مطلق اپنے اطلاق پہ جاری ہوتا ہے۔ اصول الشاشی میں ہے : ”المطلق یجری علی اطلاقہ و المقید یجری علی تقییدہ “ ترجمہ : مطلق اپنے اطلاق پر جاری ہوتا ہے اور مقید اپنی  تقیید پر جاری ہوتا ہے۔(اصول الشاشی، ص33  ، دار الکتاب العربی ، بیروت)

   استماع و انصات کا حکم قرآن کی تعظیم کے لیے  ہے اور نابالغ سے  قرآن کریم کی تلاوت سننے میں بھی یہ وجہ موجود ہے ۔البحر الرائق میں ہے :”الانصات یجب حالۃ الاستماع فیسن تعظیما للقرآن “ترجمہ :قرآن کریم کی تلاوت سنتے ہوئے خاموش رہنا واجب ہے ، پس یہ قرآن کی تعظیم کے لیے مسنون (مشروع ) ہے۔(البحر الرائق، ج 1 ، ص 327 ، دار الکتاب الاسلامی ، بیروت)

   نابالغ بچے کی تلاوت سننا بھی واجب ہے اور بغیر عذر نہ سننا گناہ ہے ۔چنانچہ  البحر الرائق میں ہے : ”حاصل الآیۃ ان المطلوب بھا امران : الاستماع و السکوت فیعمل بکل منھما و الاول یخص الجھریۃ و الثانی لا فیجری علی اطللاقہ فیجب السکوت عند القراءۃ مطلقاً و لما کان العبرۃ انما ھو لعموم اللفظ  لا لخصوص السبب وجب الاستماع لقراءۃ القرآن خارج الصلاۃ ایضا ۔۔۔۔۔ فی القنیۃ و غیرھا : الصبی اذا کان یقرا القرآن و اھلہ یشتغلون بالاعمال و لا یستمعون ان کان شرعوا فی العمل قبل قراءتہ لا یاثمون و الا اثموا“ ترجمہ :آیت کا حاصل یہ ہے کہ اس  سے دو حکم مطلوب ہیں : (1)استماع  یعنی  توجہ سے سننا (2) سکوت یعنی خاموشی اختیار کرنا۔ پس ان میں سے ہر ایک پہ عمل کیا جائے گا اور پہلا حکم (نماز کے معاملے میں)جہری نمازوں کے ساتھ خاص ہے  اور دوسرا حکم   ایسا نہیں یعنی وہ جہری نمازوں کے علاوہ کے لیے بھی ہے۔ یہ حکم اپنے اطلاق پہ جاری ہو گا، اس وجہ سے قراءت کے وقت مطلقاً خاموش رہنا واجب ہے اور جب  (اصول یہ ہے کہ) عمومِ لفظ کا اعتبار ہوتا ہے، خصوصِ سبب کا اعتبار نہیں ہوتا ، تو نماز کے علاوہ  ہونے والی تلاوت کو سننا بھی واجب ہو گا۔۔۔۔ اور قنیہ وغیرہ میں ہے :جب  بچہ قرآن پڑھ رہا   ہو اور اس کے گھر والے  کام کاج میں مشغول  ہوں اور قرآن نہیں سن رہے ، اگربچے کےتلاوت شروع   کرنے سے پہلےوہ  کام شروع  کر چکے تھے  ، تو وہ گنہگار نہیں ہوں گے، ورنہ وہ گنہگار ہوں گے۔(البحر الرائق ، ج 1 ، ص 364 ، دار الکتاب الاسلامی ، بیروت)

   علامہ سید ابن عابدین شامی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ”صبی یقرا فی البیت واھلہ مشغولون بالعمل یعذرون فی ترک الاستماع ان افتتحوا العمل  قبل القراءۃ و الا فلا“ترجمہ :ایک بچہ گھر میں قرآن پڑھ رہا ہو اور اس کے گھر والے کام کاج میں مشغول ہوں، اگر تلاوت سے پہلے وہ کام  شروع کر چکے تھے، تو ترکِ استماع (تلاوت سننے کو چھوڑ دینے ) میں معذور ہوں گے، ورنہ معذور نہیں ہوں گے۔(رد المحتار، ج2 ، ص 328 ، مطبوعہ پشاور)

   نابالغ کی تلاوت  پر بھی وہ احکام مرتب ہوں گے، جو  بالغ کی تلاوت ہیں ، اس کی ایک نظیرسجدہ تلاوت کا مسئلہ ہے ۔چنانچہ فتاویٰ عالمگیری میں ہے:” والسجدة واجبة في هذه المواضع على التالي والسامع سواء قصد سماع القرآن أو لم يقصد ۔۔۔ والأصل فی وجوب السجدة ان كل من كان من اهل وجوب الصلاة اما اداء او قضاء كان أهلا لوجوب سجدة التلاوة ومن لا فلا كذا فی الخلاصة حتى لو كان التالی كافرا أو مجنونا أو صبيا أو حائضا أو نفساء لم يلزمهم ۔ ولو سمع منهم مسلم عاقل بالغ تجب عليه لسماعہ ملخصاً “ ترجمہ: سجدہ تلاوت ان ( چودہ ) مقامات پر تلاوت کرنے والے اور سننے والے پر واجب ہے۔ ( سننے والے نے ) خواہ قرآنِ پاک سننے کا ارادہ کیا ہو یا نہ کیا ہو ، ( بہر صورت اس پر سجدہ تلاوت لازم ہوجائے گا ) اور سجدہ تلاوت کے لازم ہونے میں قاعدہ یہ ہے کہ ہر وہ شخص جو ادا یا قضا کے طور پر وجوبِ نماز کا اہل ہو ، وہ سجدہ تلاوت کے وجوب کا اہل ہوگا اور جو شخص ( وجوبِ نماز کا اہل ) نہ ہو ، تو ( وہ سجدہ تلاوت کے وجوب کا بھی اہل ) نہیں ہے ۔جیسا کہ خلاصۃ الفتاویٰ میں ہے ، یہاں تک کہ اگر تلاوت کرنے والا شخص کافر ، مجنون ، نابالغ بچہ یا حیض و نفاس والی عورت ہو ، تو ان پر سجدہ تلاوت لازم نہیں ہوگا اور اگر کوئی مسلمان عاقل بالغ ان ( مذکورہ افراد ) سے سن لے ، تو اس کے سننے کی وجہ سے اُس پر سجدہ تلاوت لازم ہوجائے گا ۔( الفتاویٰ الھندیہ ،  ج 1 ، ص 146 ، مطبوعہ کراچی )

   صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ بہارِ شریعت میں فرماتے ہیں :” آیت سجدہ پڑھنے والے پر اس وقت سجدہ واجب ہوتا ہے کہ وہ وجوب نماز کا اہل ہو یعنی ادا یا قضا کا اسے حکم ہو، لہٰذا اگر کافر یا مجنون یا نابالغ یا حیض و نفاس والی عورت نے آیت پڑھی ،تو ان پر سجدہ واجب نہیں اور مسلمان عاقل بالغ اہل نماز نے ان سے سُنی ،تو اس پر واجب ہوگیا ۔ “( بھارِ شریعت ، ج 1 ،حصہ 4 ، ص729 ، 730 ، مکتبۃ المدینہ ، کراچی )

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم