Qurani Ayat Wale Frame Ko Bagair Wazu Chuna Kaisa?

قرآنی آیت والے فریم کو بغیر وضو چھونا کیسا؟

مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر:HAB-0497

تاریخ اجراء:20رجب المرجب 1446ھ/21جنوری2025ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے كے بارے میں کہ ہمارے گھر  کی دیواروں پر آیت قرآنیہ پر مشتمل کچھ پلیٹیں اور فریم آویزاں ہیں،جن پرصرف  آیات قرآنیہ کندہ ہیں اوران کے ساتھ مزید کچھ نہیں لکھا ہوا، اب ہمیں صفائی ستھرائی کے لیے انہیں اتارنے کی ضرورت پیش آتی ہے اوربسا اوقات  ہمارا وضو   بھی نہیں ہوتا، ایسی صورت میں  انہیں بلا حائل چھونا، جائز ہے یا نہیں؟

   واضح رہے کہ مذکورہ  فریم بلکل کَوَر ٹائپ ہے اوراس کےسامنے کی جانب شیشہ لگا ہواہے، نیز ان کے  درمیان میں خالی جگہ بھی ہے، جہاں سے اس  کے اندر  صفحہ یا گتا ڈالا جاتا ہے، یہیں سے فریم  کے اندر آیت سے کندہ گتّا ڈالا گیا ہے، اور اسے فریم کے کسی حصے کے  ساتھ چپکایا نہیں گیا، اگر چاہیں تو  اسے بآسانی نکال بھی  سکتے ہیں۔ باقی پلیٹوں کا معاملہ اس سے بلکل جدا ہے، ان کے ساتھ کوئی  کَوَر یا شیشہ نہیں لگا ہوا، لہذا  اس تفصیل کو مد نظر رکھتے ہوئےدونوں چیزوں کے حوالے سے شرعی رہنمائی فرمادیں، نیز یہ بھی بتادیں کہ اگر انہیں چھونا منع ہے، تو صرف آیت لکھے ہوئےحصے  کو نہیں چھوسکتے یا ہر حصے کوچھونا منع ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   کسی چیز مثلا ً:تختی وغیرہ پر صرف آیتِ قرآنیہ یا اس کے کسی حصے کا لکھا ہونا اسے مصحف  کے حکم میں کردیتا ہے، جس کے سبب بے وضو یا ناپاکی کی حالت میں اُسے  بلا حائل چھونا جائز نہیں ہوتا، اور یہ ممانعت صرف آیت لکھے ہوئے حصے تک محدود نہیں ہوتی، بلکہ اس کے  ہر حصے کو شامل   ہوتی ہے، یوں اس کے کسی بھی حصے کو چھونا، جائز نہیں رہتا، لہذا بیان کردہ صورت  میں:

   (۱)اول الذکر پلیٹوں  کے کسی بھی حصےکو بے وضو یا ناپاکی کی حالت میں  بلا حائل چھونا، جائز نہیں کہ  صرف آیت قرآنیہ پر مشتمل ہونے کی وجہ سے وہ  مصحف کے حکم میں ہیں۔

   (۲)یہی معاملہ  فریم  کےاندرموجود گتے کا  بھی ہے کہ اس کے بھی کسی حصے کو بلاحائل چھونا، جائز نہیں ،رہا مذکورہ فریم کو چھونا! تو وہ جائز ہے، کیونکہ فریم کی جو تفصیل بیان کی گئی اس کے مطابق وہ گتے اور چھونے والے کے درمیان حائل کی حیثیت رکھتا  ہے۔

   کسی چیز پرصرف آیت قرآنیہ کا لکھا ہونا،اسے مصحف کے حکم میں کردیتا ہے،چنانچہ متعدد کتب فقہیہ میں ہے، و اللفظ للخزانۃ المفتین: ”والدرهمُ المكتوبُ عليه سورةٌ من القرآن حكمُه حكمُ المصحف ۔۔۔۔ و اللوحُ المكتوبُ عليه آيةٌ تامّةٌکالمصحف“  جس درہم پر قرآنی سورت لکھی ہو تو اس کا حکم مصحف والا ہے ۔۔ ۔۔۔ایسی تختی کہ جس پر کامل آیت لکھی ہو وہ مصحف کے حکم میں ہے۔(خزانۃ المفتین، کتاب الصلاۃ، ص702، مطبوعہ سعودیۃ)

   اور اس چیز کو مطلقا چھونا، جائز نہیں ہوتا، جوہرہ میں ہے: ”لا يجوز له مس شيء مكتوب فيه شيء من القرآن من لوح أو درهم أو غير ذلك إذا كان آية تامة“ جس تختی، درہم وغیرہ پر قرآن کی ایک مکمل آیت لکھی ہو، تو اُس تختی، درہم وغیرہ کو ناپاکی کی حالت میں  چھونا،جائز نہیں۔(الجوھرۃ النیرۃ، ج01، ص31، المطبعة الخيرية)

   بہار شریعت میں ہے:” رُوپیہ پر آیت لکھی ہو، تو ان سب کو (یعنی بے وُضو اور جنب اور حَیض و نِفاس والی کو) اس کا چھونا حرام ہے، ہاں اگر تھیلی میں ہوتو تھیلی اٹھانا، جائز ہے۔ یوہیں جس برتن یا گلاس پر سورہ یا آیت لکھی ہو اس کا چھونا بھی ان کو حرام ہے۔“(بھار شریعت، ج01، ص327، مکتبۃ المدینۃ، کراچی)

   بہار شریعت میں ہی ہے: کاغذ کے پرچے پر کوئی سورہ یا آیت لکھی ہواس کا بھی چھونا حرام ہے۔“(بھار شریعت، ج01، ص 379، مکتبۃ  المدینہ، کراچی)

   اور پوری آیت کا لکھا ہونا ضروری نہیں،بلکہ  اس سے کم کا بھی یہی حکم ہے،مجمع الانھر میں ہے: ”و لكن أقول: ولو قال فيه شيء من القرآن لكان أولى سواء كان آية أو دونها؛ لأن ما دون الآية عند أكثر الفقهاء يساويها في الحكم وهو الصحيح“ لیکن میں کہتا ہوں: اگر یہ کہتے  کہ قرآن کا کچھ حصہ لکھا ہوا ہو،تو بہترہوتا کیونکہ یہ آیت یا اس سے کم بھی ہوسکتا ہے،کیونکہ اکثر فقہاء کے نزدیک آیت سے کم کا بھی یہی حکم ہے اور یہی صحیح ہے۔(مجمع الانھر، ج01، ص26، دار الکتب العلمیۃ، بیروت)

   کیونکہ اصل حرمت مکتوب الفاظ کریمہ کی ہے، حلبۃ المجلی میں ہے: ”حرمۃ مس  المصحف لما كتب فيه فيستوي في ذلك المصحف و غيره مماكتب فيه شئي  من القرآن“ (ناپاکی کی حالت میں)مصحف  شریف کو چھونے کی حرمت اس میں مکتوب الفاظ ِ کریمہ کی وجہ سے ہے، لہذا اس  معاملے میں مصحف وغیرہ  چیزیں جن پر قرآن  پاک  کا کچھ حصہ لکھا ہوا ہو، برابر ہیں۔(حلبۃ المجلی ملتقطاً، ج01، ص183، دار الکتب العلمیۃ، بیروت)

   حائل کا  چھونے والے اور جس چیز کو چھوا جارہا ہے، ان  سے علیحدہ تیسری چیز ہونا اور ان میں سے کسی کے تابع نہ ہونا ضروری ہے، نہایہ میں ہے: ”أن يكون شيئا ثالثا بين الماس والممسوس ولا يكون تبعا لأحدهما كالكم في حق الماس والجلد المشرز في حق الممسوس“ حائل کا چھونے والے اور جس چیز کو چھورہا ہے، ان سے علیحدہ تیسری چیز ہونااور اس میں سے کسی کے تابع نہ ہونا ضروری ہے، جیسے آستین چھونے والے کے اور مصحف کے ساتھ  سلا ہوا  غلاف مصحف کے تابع ہوتا ہے۔(النھایۃ شرح الھدایۃ، ج01، ص233، مركز الدراسات الإسلامية بكلية الشريعة و الدراسات الإسلامية بجامعة أم القرى(

   موم جامے کے حائل ہونے کے متعلق شامی میں ہے: ”الهيكل والحمائلي المشتمل على الآيات القرآنية، فإذا كان غلافه منفصلا عنه كالمشمع ونحوه جاز دخول الخلاء به ومسه وحمله للجنب“ وہ نقوش اور تعویذات جو آیات قرآنیہ پر مشتمل ہیں، اگر ان کا غلاف ان سے جدا ہے، جیسا کہ موم جامہ وغیرہ، تواس کے ساتھ بیت الخلاء میں داخل ہونا، جنبی کے لئے اسے چھونا اور اٹھانا ،جائز ہے۔(رد المحتار، ج01، ص 178، دار الفکر)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم