Shabina Parhne Ka Hukum

شبینہ پڑھنے کا حکم ؟

دارالافتاء اھلسنت)دعوت اسلامی)

سوال

کیافرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ شبینہ پڑھنا یعنی ایک رات میں مکمل قرآن حکیم کی تلاوت کرنا کیسا ہے؟ اگر ممنوع ہے تو اِس کے اسباب کیا ہیں اور اگر ممانعت کے اسباب ختم کر دیے جائیں تو کیا جائز ہے؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

کلامِ الہی کی تلاوت، عظیم سعادت اور بڑی قدر ومنزلت والی عبادت ہے۔ اِس کی برکت سے دل منور، روح تازہ اور ایمان کی حقیقی مٹھاس نصیب ہوتی ہے۔ اہلِ ایمان ہمیشہ سے اِس کی کثرت سے تلاوت کرتے آئے ہیں۔کثیر اولیاء وصالحین محبتِ الہی میں شوقِ تلاوت سے سرشار ہو کر ایک رات میں مکمل قرآنِ حکیم کی تلاوت کرتے تھے، بلکہ اِس سے بڑھ کر ایک ہی رکعت میں مکمل قرآن مجید کی تلاوت کرنے والوں کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے، جن میں حضرت عثمان غنی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ بھی شامل ہیں۔ لہذا معلوم ہوا کہ ایک رات میں ختم قرآن کرنا، جائز اور اکابر صحابہ، تابعین اور جلیل القدر آئمہ دین واولیاءِ کاملین کا معمول رہا ہے۔البتہ عام لوگوں کے مزاج اور زمانے کے حالات کو سامنے رکھتے ہوئے چند اسباب کے پیشِ نظر فقہاءِ دین نے ایک رات میں ختم قرآن کی ممانعت ذکر فرمائی ہے، لیکن اگر اُن اسباب یا عوارِض کو زائل کر دیا جائے تو آج بھی ایک نشست میں ختم قرآن جائز ہے۔

اِس تمہید کے بعد صورتِ مسئولہ کا جواب یہ ہے کہ اگر ضروری قواعدِ تجوید کی رعایت رکھتے ہوئے قرآن پاک کی صحیح قراءت کی جائے، لوگ سستی سے نہیں، بلکہ اپنے شوق ورغبت سے شریک ہوں، لاؤڈاسپیکر کے ذریعے اہل ِ علاقہ مسلمانوں کی پریشانی کا باعث نہ بنا جائے، تو اس میں کوئی حرج نہیں، بلکہ ایسا شبینہ اور ختم قرآن یقیناً باعثِ خیر وبرکت، بے شمار ثواب کے حصول کا سبب اور بزرگانِ دین کے معمولات کی خوبصورت تصویر ہو گا لیکن اگر ضروری قواعد ِتجوید کی پرواہ نہ کی جائے، مثلا مد متصل کو ترک کیا جائے یا حروف کو ایک دوسرے سے ممتاز نہ کیا جائے، یا الفاظ چبائے جائیں اور پوری طرح ادا نہ ہوں  تو ایسا شبینہ نا جائز و حرام ہے۔

جن وجوہات کے سبب ایک رات میں ختم قرآن کو ممنوع قرار دیا گیا، وہ یہ ہیں: (1)غوروفکر اور تدبر کا نہ ہونا(2) کَسَل(3)بہت تیز پڑھنا(4) قراءت کے واجبات کو چھوڑنا(5)متشابہ اور ایک دوسرے سے ملتے جُلتے حروف میں امتیاز پیدا نہ کرنا۔اِن وجوہاتِ ممانعت کی تفصیلات نیچے بیان کی جائیں گی۔

ایک رات میں ختم قرآن کرنے والے صالحین:

”الخیرات الحِسان“ میں امام اعظم ابو حنیفہ رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے متعلق ہے:

”قد تواتر قيامه الليل وتهجده وتعبده، ومن ثمة كان يسمى الوتد من كثرة قيامه الليل بل أحياه بقراءة القرآن في ركعة ثلاثين سنة“

ترجمہ: امام اعظم ابو حنیفہ رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی تہجد، قیامِ اللیل اور عبادات کا معمول متواتر اور مسلسل تھا، اِسی لیے اُنہیں ”وتد“ یعنی زمین میں گڑی ہوئی میخ کہا جاتا تھا، کیونکہ وہ کثرت سے قیامُ اللیل کرتے تھے، بلکہ آپ تیس سال تک مسلسل روزانہ رات کو ایک ہی رکعت میں ختم قرآنِ مجید کیا کرتے تھے۔(الخیرات الحسان، الفصل الرابع عشر، صفحہ 50، مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ، بیروت)

امام شافعی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے متعلق شیخ عبداللہ سراج حسینی شامی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (وِصال: 1422ھ/ 2001ء) نقل کرتے ہیں:

قال العلامة ابن حجر الهيتمي: وكان للشافعي رضي اللہ عنه في رمضان ستون ختمة يقرؤها في غير الصلاة“

 ترجمہ: علامہ ابنِ حجر رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں: امام شافعی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ رمضان المبارک میں 60 ختم قرآن کیا کرتے تھے۔ یہ وہ تلاوت تھی، جو نماز کے علاوہ کیا کرتے تھے۔(تلاوۃ القرآن المجید، صفحۃ 181، مطبوعۃ مکتبۃ دار الفلاح، حلب)

ایک رکعت میں ختم قرآن کرنے والے عاشقانِ قرآن کی تعداد اِتنی زیادہ ہے کہ جسے شمار بھی نہیں کیا جا سکتا، چنانچہ امام شرف الدین نَوَوِی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (وِصال: 676ھ/1277ء) لکھتے ہیں:

”روى ابن أبي داود بإسناده الصحيح أنّ مجاهداً رحمه اللہ كان يختم القرآن في رمضان فيما بين المغرب والعشاء.وأما الذين ختموا القرآن في ركعة، فلا يُحصون لكثرتهم، فمنهم عثمان بن عفان، وتميم الدّاري، وسعيد بن جبير“

 ترجمہ: امام ابنِ ابو داؤد رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے اپنی صحیح سند سے روایت کیا کہ حضرت مجاہد رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ رمضان المبارک کے مہینے میں مغرب وعشاء کے درمیانی وقت میں مکمل قرآن کریم تلاوت کر لیتے تھے۔ خدا کے وہ نیک بندے کہ جو ایک رکعت میں ہی ختم قرآن کر لیتے ہوں، وہ تو اِتنے زیادہ ہیں کہ قابلِ شمار ہی نہیں۔ اُن میں حضرت عثمان بن عفان، حضرت تمیم داری اور حضرت سعید بن جبیر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہم بھی شامل ہیں۔ (الأذکار للنووی، صفحۃ 102، مطبوعہ دار الفکر، بیروت)

لہذا معلوم ہوا کہ ایک رات میں ختم قرآن کرنا، جائز اور معمولاتِ صالحین سے ثابت ہے، چنانچہ امامِ اہلِ سنَّت، امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (وِصال: 1340ھ/1921ء) لکھتے ہیں: شبینہ فی نفسہ قطعاً جائز و رَوَاہے۔ اکابر آئمہ دین کامعمول رہا ہے۔ اسے حرام کہنا شریعت پرافتراہے۔ امام الآئمہ سیدنا امام اعظم رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہنے تیس برس کامل ہر رات ایک رکعت میں قرآن مجید ختم کیاہے۔علمائے کرام نے فرمایا ہے: سلف صالحین میں بعض اکابر دن رات میں دوختم فرماتے، بعض چار، بعض آٹھ۔ (فتاوٰی رضویہ، جلد07، صفحہ476، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

ممانعت کے اسباب:

جن اسباب کو بنیاد بنا کر فقہاءِ دین نے ایک رات میں ختم قرآن کرنے سے روکا ہے، وہ یہ ہیں۔

(1)عدم تفقہ، یعنی جلدی اور تیز پڑھنے کی وجہ سے آیاتِ قرآنیہ میں غور وفکر نہیں ہو سکے گا، اِسی لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے بھی ارشاد فرمایا:

”لا يفقه من قرأه في ‌أقل ‌من ‌ثلاث“

 ترجمہ: جس نے تین دن سے کم مدت میں ختمِ قرآن کیا، اُس نے قرآن کو نہیں سمجھا۔(سنن ابی داؤد، جلد2، صفحہ 538، مطبوعہ دار الرسالۃ العالمیۃ، بیروت)

یاد رہے کہ غوروفکر اور تدبر کے ساتھ تلاوت کرنا، افضل ہے، کوئی فرض و واجب نہیں لہٰذا اگر کوئی بغیر تدبر کے تلاوتِ قرآن کرے اور کثرت سے پڑھے تو یقیناً یہ بھی کثیر ثواب کے حصول کا سبب ہے، لیکن بعض مرتبہ اِس افضل اندازِقراءت کو بھی اختیار کرنا چاہیے۔ فتاویٰ عالَمگیری میں ہے:

”أفضل القراءة ‌أن ‌يتدبر ‌في ‌معناه“

 ترجمہ: قراءت کی افضل صورت یہ ہے کہ قاری قرآنِ حکیم کے معانی میں غوروفکر کرے۔ (الفتاوى الھندیۃ، جلد05، صفحہ317، مطبوعہ کوئٹہ )

بغیر تدبر پڑھنے سے بھی ثواب کا حصول ضرور ہو گا، چنانچہ فتاوی رضویہ میں ہے: ”(تفکر سے محروم لوگوں) کے لیے ”معتدل جلدی“ ہی کاافضل ہونا چاہیے، کہ جس قدر جلد پڑھیں گے، قراءت زائد ہوگی اور قرآن کریم کے ہرحرف پردس نیکیاں ہیں۔ سوکی جگہ پانچ سو حرف پڑھے، تو ہزار کی جگہ پانچ ہزارنیکیاں ملیں۔“ (فتاوٰی رضویہ، جلد07، صفحہ478، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

(2) ”کسل“، یعنی کسی چیز کو بلاوجہ بوجھ سمجھنا، حالانکہ وہ چیز ہرگز ایسی نہیں ہوتی کہ اُسے بوجھل سمجھا جائے۔ شبینہ یا تراویح میں اِس کی صورت یہ ہو سکتی ہے کہ لوگ قراءت مکمل ہونے کا انتظار کریں اور جب امام رکوع میں پہنچے، تو مقتدی جلدی سے رکوع میں شامل ہوجائیں۔ یہ مکروہِ تنزیہی ہے۔ ”کَسَل“ کا معنی بیان کرتے ہوئے علامہ شیخی زادہ رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (وِصال: 1078ھ/1667ء) لکھتے ہیں:

”وهو التثاقل عما لا ينبغي أن يتثاقل عنه ولذا كان مذموما“

ترجمہ: ”کَسَل“ کسی چیز کے متعلق ایسا بوجھ اور سستی ہے کہ جس چیز سے قطعاً بوجھ محسوس نہیں کرنا چاہیے۔ اِسی لیے ”کَسَل“ مذموم صفت ہے۔ (مجمع الانھر، جلد01، صفحہ137، مطبوعہ دار احیاء التراث العربی)

ابو الحسنات علامہ عبدالحی لکھنوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (وِصال: 1304ھ/1886ء) شبینہ میں”کَسَل“ کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

”تكاسل السامعين، فإنَّ الحافظ إذا قام للقراءة ينتظرون لركوع الركعة الأولى، فإذا أراد أن يركع يشتركون معه، فحق أن يقال في حقهم: وَ اِذَا قَامُوْۤا اِلَى الصَّلٰوةِ قَامُوْا كُسَالٰى

 ترجمہ: سامعین کی سستی: جب حافظِ قرآن قراءت کے لیے کھڑا ہوتا ہے، تو سامعین پہلی رکعت کے رکوع کا انتظار کرتے ہیں، پھر جب وہ رکوع کرنا چاہتا ہے، تو اس کے ساتھ شریک ہو جاتے ہیں۔یہ بات بالکل درست ہے کہ ایسوں کےحق میں یہ کہا جائے: اور جب نماز کے لئے کھڑے ہوتے ہیں تو بڑے سست ہوکر۔(إقامۃ الحجۃ علی ان الاکثار فی التعبد لیس ببدعۃ، صفحہ 55، مطبوعہ ادارۃ القرآن، کراچی)

(3) ”ہذرمۃ“، یعنی گھاس کاٹنا۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ اِتنی تیزی کے ساتھ قرآنِ حکیم کی تلاوت کرنا کہ مقتدیوں کو تیز رفتاری کی وجہ سے ”یعلمون“، ”تعلمون“ کے سوا کچھ سمجھ ہی نہ آئے۔

(4) قراءت کے واجبات کو چھوڑنا، یعنی مد متصل وغیرہ کو ترک کرنا، کہ یہ گناہ اور مکروہِ تحریمی ہے۔

(5)متشابہ اور ایک دوسرے سے ملتے جُلتے حروف میں امتیاز پیدا نہ کرنا، یعنی ”ت، ط“ اور ”ز، ذ“ میں فرق نہ کرنا۔ ایسی غلطی حرام اور نماز کو فاسد کرنے والی ہے۔

”کسل“ اور بعد والے دیگر اسباب کے متعلق امامِ اہلِ سنَّت، امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (وِصال: 1340ھ/1921ء) لکھتے ہیں: ”دوم: کسل۔۔۔ مگر اس وجہ کا مفاد صرف کراہت تنزیہی ہے، علماء نے تصریح فرمائی کہ کسل قوم کے سبب تراویح میں قرآن نہ چھوڑیں۔اگر کراہت تحریم ہوتی، تو اُس سے احتراز احتراز سنت پرمقدم رہتا اور مکروہ تنزیہی جواز واباحت رکھتاہے نہ کہ گناہ وحرمت۔۔۔ سوم : هذرمة: گھاس کاٹنا۔بعض لوگ ایساجلد پڑھتے ہیں، ”علیم“ یاحکیم“ ”یعقلون“، ”تعلمون“ غرض لفظ ختم آیت کے سوا کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔ یہ نفس سنت کافانی اور بدعت شنیعہ اور اساء ت ہے۔چہارم: ترک واجبات قرأۃ مثل مدمتصل، یہ صورت گناہ ومکروہ تحریمی ہے۔پنجم: امتیاز، حروفِ متشابہ مثل ث س ص، ت ط، ز ذ ظ وغیرہا نہ رہنا، یہ خود حرام ومفسدنماز ہے۔ مگرہندوستان کی جہالتوں کا کیاعلاج، حفاظ وعلماء کودیکھاہے کہ تراویح درکنار فرائض میں بھی اس کی رعایت نہیں کرتے، نمازیں مفت بربادجاتی ہیں۔ “ (فتاوٰی رضویہ، جلد07، صفحہ479، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

امامِ اہلِ سنَّت رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ سے جس شبینہ کے متعلق سوال پوچھا گیا، اُس کی تفصیلات کو سامنے رکھتے ہوئے لکھتے ہیں: شبینہ مذکورہ سوال کہ اِن عوارض ِ(خمسہ)سے خالی تھا، اُس کے جواز میں کوئی شبہ نہیں۔ (فتاوٰی رضویہ، جلد07، صفحہ 480، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

” إقامۃ الحجۃ علی ان الاکثار فی التعبد لیس ببدعۃ“ میں ہے:

قد وقع السؤال كثيرا عما تداول الناس في زماننا، في ليلة السابع والعشرين أو غيرها من ليالي رمضان أنهم يزينون المسجد بالفرش، ويكثرون تعليق القناديل وإسراج السرج، ويجعلون حفاظاً سريعي القراءة جيدي الحفظ، يختمون القرآن كلّه في ليلة واحدة في صلاة التراويح، فيقوم واحد بعد واحد، ويقرأ كلّ واحد حسبما أمكن له في ركعتين أو ركعات إلى أن يحصل الختم قريب الصبح الصادق أو وقت السحر حسب سرعة القارئين وطاقتهم، ويسمونه: ختم شبينه، فهل يجوز ذلك أم لا؟ فأجبت بأن نفس ختم القرآن في ليلة أمر مرغوب فيه۔۔۔ وھو امر حسن، قد فعلہ کثیر من السلف، بل منھم من ختمہ فی رکعۃ واحدۃ

 ترجمہ: ہمارے زمانے میں رائج ایک چیز کے متعلق کثرت سے سوال اٹھایا جاتا ہے کہ لوگ آج کل رمضان کی ستائیسویں رات یا دیگر راتوں میں مسجد کو فرش اور قندیلوں سے سجاتے ہیں، بہت زیادہ چراغاں کرتے ہیں، اور تیز قراءت کرنے والے حافظوں کو مقرر کرتے ہیں، جو تراویح کی نماز میں پورا قرآن ایک رات میں ختم کرتے ہیں۔ اس طرح ایک کے بعد ایک حافظ کھڑا ہوتا ہے اور ہر ایک اپنی طاقت کے مطابق دو رکعت یا چند رکعت میں جتنا ہو سکے، پڑھتا ہے، یہاں تک کہ صبح صادق یا سحری کے وقت تک قرآن ختم ہو جاتا ہے۔ یہ حافظوں کی قرأت کی رفتار اور طاقت پر منحصر ہوتا ہے۔ اسے وہ ”ختم شبینہ“ کا نام دیتے ہیں۔ کیا یہ عمل جائز ہے یا نہیں؟ میں نے جواب دیا: بلاشبہ ایک رات میں قرآن ختم کرنا پسندیدہ اور اچھا عمل ہے۔ اَسلاف میں بہت سی ہستیاں یہ عملِ حسن کرتی رہی ہیں، بلکہ اُن میں سے بعض بزرگ ایک رکعت میں ہی مکمل ختم قرآن کر لیا کرتے تھے۔ (إقامۃ الحجۃ علی ان الاکثار فی التعبد لیس ببدعۃ، صفحہ 55، مطبوعہ ادارۃ القرآن، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: FSD-9331

تاریخ اجراء: 16ذو القعدۃ الحرام 1446ھ / 14 مئی 2025ء