کون سی سنت چھوڑنے سے شفاعت سے محرومی ہوگی؟

کون سی سنت کو ترک کرنے سے شفاعت سے محرومی اور وعید ہے؟

مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر:Fsd-9283

تاریخ اجراء:28 شعبان المعظم 1446 ھ/ 27 فروری 2025 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیافرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہم نے حدیث مبارک سنی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا: جو میری سنت کو ترک کرےگا، اسے میری شفاعت نہ ملے گی، اس پر سوال یہ ہے کہ   ہم نے کئی ایک سنتوں کے بارے  میں علماء سے سنا ہے کہ یہ کام سنت تو ہے لیکن چھوڑنے  پر گنا ہ نہیں، تو جب گناہ نہیں، اسے شفاعت سے محروم ہونے کا جو  حدیث مبارک میں کہا گیا ہے یہ پھر کیوں کہا گیا ہے، اس حوالے سے  درست رہنمائی کی  جائے۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم کی  سنتیں دوقسم کی ہیں:

   (1) سنن ہدیٰ، اسے سنت مؤکدہ بھی کہتے ہیں یہ وہ سنتیں ہیں جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ ادا کیں، لیکن کبھی کبھار  بیان جواز کے لئے چھوڑ بھی دیں۔ یا وہ سنتیں جن کے کرنے کی تاکید فرمائی، لیکن چھوڑنےکی رخصت بالکل ختم نہ فرمائی، شریعت مطہر ہ میں اس کے کرنے کی تاکید ہے، یہاں تک کہ بلاعذر ایک بار بھی چھوڑنے والا ملامت کا مستحق ٹھہرتا ہے، اور اگر کوئی اسے ترک کرنے کی عادت بنا لے تو وہ فاسق، مردود الشہادۃ اور عذاب کا مستحق ہو جاتا ہے۔

   (2) سنن زوائد، جنہیں سنتِ غیر مؤکدہ بھی کہا جاتا ہے، وہ سنتیں ہیں جن کا   چھوڑنا  شریعت میں ناپسندیدہ ضرور ہے، مگر چھوڑنا اتنا برا نہیں کہ اس پر کوئی وعید یاترک پر اصرار کی صورت میں  گناہ ہو۔ چاہے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ان پر ہمیشہ عمل فرمایا ہو یا نہ فرمایا ہو، ان پر عمل کرنے میں ثواب ہے، اور اگر کوئی انہیں چھوڑ دے، چاہے عادتاً ہی کیوں نہ ہو، تو اس پر کوئی ملامت یا پکڑ نہیں۔

   اب سوال کا جواب یہ ہے کہ سوال میں بیان کردہ حدیث مبارک  اور اس کے علاوہ دیگر روایات کہ جن میں تارک سنت کو ملامت ووعید کا  مستحق قرارد یا ہے، یہ وعیدات صرف سنت مؤکدہ    چھوڑنے والے کے متعلق ہیں، سنت غیر مؤکدہ چھوڑنے والے کے متعلق نہیں۔

   صدرالشریعہ بدرالطریقہ حضرت علامہ مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ القوی سنت مؤکدہ و غیر مؤکدہ کی تعریف اور ان کا حکم بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’سنت ِمؤکدہ: وہ جس کو حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ہمیشہ کیا ہو، البتہ بیانِ جواز کے واسطے کبھی ترک بھی فرمایا ہو یا وہ کہ اس کے کرنے کی تاکید فرمائی مگر جانب ِ ترک بالکل مسدود نہ فرمائی ہو، اس کا ترک اساء ت اور کرنا ثواب اور نادراً ترک پر عتاب اور اس کی عادت پر استحقاقِ عذاب۔ سنت ِغیر مؤکدہ: وہ کہ نظر شرع میں ایسی مطلوب ہو کہ اس کے ترک کو ناپسند رکھے مگر نہ اس حد تک کہ اس پر وعید عذاب فرمائے عام ازیں کہ حضور سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس پر مداومت فرمائی یا نہیں، اس کا کرنا ثواب اور نہ کرنا اگرچہ عادتاً ہو موجب ِ عتاب نہیں۔‘‘ (بھارِ شریعت، جلد 1، صفحہ 283، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   حدیث مبارک میں موجود وعید،  سنت مؤکدہ  ترک کرنےکے بارے  میں ہے  جیسا کہ حاشیۃ الطحطاوی على مراقی الفلاح اور رد المحتار میں علامہ سعد الدین التفتازانی رحمۃ اللہ تعالیٰ کی کتاب ”التلویح علی التوضیح“ کے حوالے سے منقول ہے کہ :"ترك السنة المؤكدة قريب من الحرام يستحق حرمان الشفاعة، لقوله عليه الصلاة والسلام: من ترك سنتي لم ينل شفاعتي۔ ترجمہ: سنت مؤکدہ کو ترک کرنا حرام کے قریب ہے اسے ترک کرنے والامعاذاللہ شفاعت سے محروم ہو جائے گا، حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ عليہ وسلم کے اس فرمان کی وجہ سے: ''جو میری سنت کو ترک کریگا، اسے میری شفاعت نہ ملے گی۔'' (رد المحتار، جلد 1، صفحہ 232، مطبوعہ کوئٹہ)

   یونہی فتاوی رضویہ میں ہے:”سنن موکدہ کے ترک میں سخت ملامت ہوگی اور عیاذ باللہ شفاعت سے محرومی بھی وارد۔“ (فتاویٰ رضویہ، جلد 10، صفحہ 796، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

   یونہی صدرالشریعہ بدرالطریقہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃاللہ تعالی علیہ بہار شریعت میں ارشاد فرماتے ہیں: "سنتیں بعض مؤکدہ ہیں کہ شریعت میں اس پر تاکید آئی۔ بلاعذر ایک بار بھی ترک کرے تو مستحق ملامت ہے اور ترک کی عادت کرے تو فاسق،  مردود الشہادۃ، مستحق نار ہے۔ اور بعض ائمہ نے فرمایا: کہ ''وہ گمراہ ٹھہرایا جائے گا اور گنہگار ہے، اگرچہ اس کا  گناہ واجب کے ترک سے کم ہے۔ ''تلویح میں ہے، کہ اس کا ترک قریب حرام کے ہے۔ اس کا تارک مستحق ہے کہ معاذ اللہ! شفاعت سے محروم ہو جائے کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ عليہ وسلم نے فرمایا: ''جو میری سنت کو ترک کریگا، اسے میری شفاعت نہ ملے گی۔'' (بھار شریعت، جلد 1، صفحہ 662، مکتبۃ  المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم