وتر کو مغرب کی طرح نہ پڑھو حدیث کی وضاحت

وتر کو مغرب کی طرح نہ پڑھو حدیث کا مطلب؟

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلہ کےبارے میں کہ ایسی کوئی حدیثِ پاک ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا: وتر کو مغرب کی نماز کے مشابہ نہ پڑھو؟ اگر یہ حدیث ہے، تو اس کی اسنادی حیثیت کیا ہے؟ نیز اس حدیث کا مطلب بھی بیان کر دیں کہ اس سے مراد کیا ہے؟

سائل: محمد احمد (کلیم شہید پارک، فیصل آباد)

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

اس فتویٰ میں بنیادی طور پر تین باتوں پر کلام ہوگا: (1) مذکورہ حدیثِ پاک کی اسنادی حیثیت کیا ہے؟ (2) حدیثِ پاک کی درست مراد کیا ہے؟ (3) بعض افرادکی طرف سے حدیثِ پاک کی، کی جانے والی غلط اورمن چاہی تشریح کا مدلل جواب۔

(1) حدیثِ پاک "وتر کو مغرب کی نماز کے مشابہ نہ پڑھو" صحیح ہے، مستدرک للحاکم وغیرہ کئی کتبِ احادیث میں موجود ہے، اس کے مکمل الفاظ یہ ہیں:

"لا توتروا بثلاث، و لا تشبهوا بصلاة المغرب، أوتروا بخمس، أو بسبع"

یعنی: تین وتر نہ پڑھا کرو اور اس کو مغرب کی نماز سے مشابہ نہ کرو، بلکہ وتر میں پانچ یا سات رکعات پڑھا کرو۔ (مستدرک للحاکم، کتاب الوتر، جلد 1، صفحہ 446، مطبوعہ دار الكتب العلميه، بیروت)

ائمۂ حدیث نے اس کی سند کے متعلق فرمایا کہ اس کے تمام راوی ثقہ ہیں۔

چنانچہ مستدرک للحاکم کی مذکورہ حدیثِ پاک کے تحت التلخيص الحبیر میں ہے:

"و رجاله كلهم ثقات"

یعنی: اس کے تمام راوی ثقہ ہیں۔ (التلخیص الحبیر، جلد 2، صفحہ 38، مطبوعہ دار الكتب العلميه، بیروت)

اسی بات کو علامہ مقدسی اور امام دار قطنی رحمہمااللہ تعالیٰ نے بیان کیا ہے۔

(2) حدیثِ پاک کا صحیح مطلب یہ ہے کہ صرف تین رکعات پر اکتفا نہ کیا کرو، بلکہ وتر کی نماز سے پہلے دو، چار رکعت نفل نماز پڑھ لیا کرو، تاکہ مغرب کی نماز کے مشابہ نہ ہو، کیونکہ مغرب کے تین فرائض سے پہلے نفل نماز نہیں پڑھی جاتی۔

یا مراد یہ ہے کہ جس طرح نمازِ مغرب میں دعائے قنوت نہیں پڑھی جاتی، اس طرح نمازِ وتر بغیر قنوت کے نہ پڑھو، بلکہ وتر میں دعائے قنوت پڑھا کرو تاکہ مغرب کے فرائض اور وتر کی نماز میں فرق ہوجائے۔ انہی معانی و مطالب کی تائید کئی صحیح احادیثِ طیبہ سے بھی ہوتی ہے۔

حدیثِ پاک کی مراد کے متعلق عمدۃ القاری، نخب الافکار، شرح معانی الآثار، مرقاۃ المفاتیح وغیرہا کتب ِشروح ِ حدیث میں ہے،

و اللفظ للاول: ”یحتمل کراھۃ الوتر من غیر تطوع قبلہ من شفع و یکون المعنی لا توتروا بثلاث رکعات وحدھا من غیر ان یتقدمھا شیئ من التطوع بل اوتروا ھذہ الثلاث مع شفع قبلھا لتکون خمسا و الیہ اشار بقولہ واوتروا بخمس او اوتروا ھذہ الثلاث مع شفعین قبلھا لتکون سبعا والیہ اشار بقولہ او بسبع۔۔۔۔ و لا تفردوا ھذہ الثلاث کصلاۃ المغرب لیس قبلھا شیئ و الیہ اشار بقولہ و لا تشبھوا بصلاۃ المغرب و معناه: لا تشبهوا بصلاة المغرب في كونها منفردة“

ترجمہ: حدیثِ پاک میں اس معنیٰ کا احتمال ہے کہ وتر کو اس طرح پڑھنا مکروہ ہے کہ اس سے پہلے نفل نہ پڑھے جائیں اورحدیث کامعنی یہ ہوگا کہ ان تین رکعتوں کواس طرح علیحدہ نہ پڑھو کہ اس سے پہلے کچھ نفل نہ پڑھے جائیں،بلکہ یہ تین رکعت اس طور پر پڑھو کہ اس سے پہلے ایک شفع (دورکعت) نفل نماز پڑھو تاکہ یہ پانچ رکعتیں ہو جائیں، اسی طرف اشارہ ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے اس فرمان کے ذریعے: "اور تم پانچ وتر پڑھو" یا پھر یہ تین رکعتیں اس طورپرپڑھو کہ اس سے پہلے دو شفع (چار رکعت) نفل کے ہوں تاکہ یہ سات رکعتیں ہو جائیں، اس کی طرف اشارہ ہے نبی کریم علیہ الصلوۃ و السلام کے اس فرمان میں: "یا پھر سات رکعت پڑھو"۔ یعنی جس طرح مغرب کی نماز ہوتی ہے کہ اس سے پہلے کچھ نہیں پڑھا جاتا اس طرح یہ تین رکعتیں اکیلی نہ پڑھو، اس کی طرف اشارہ ہے نبی کریم علیہ الصلوۃ و السلام کے اس فرمان میں: "مغرب کی نماز سے مشابہت نہ کرو"۔ یعنی: وتر کے اکیلے پڑھے جانے میں مغرب کی نماز کے ساتھ مشابہ نہ کرو۔ (عمدۃ القاری، جلد 4، صفحہ 253، مطبوعہ دار احیاء التراث العربی)

حدیثِ پاک کی دوسری مراد "وترمیں قنوت کے ذریعے وترو مغرب میں فرق کرو" کے متعلق مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

”لا تشبهوا الوتر بصلاة المغرب أي: في أنه لا يسبقه صلاة، أو بأن يكون بلا قنوت“

ترجمہ: وتر کو مغرب کی نماز کے مشابہ نہ کرو، یعنی اس طرح کہ وتر سے پہلے کوئی نفل نماز ہی نہ پڑھو یا اس طرح کہ وتر بغیر قنوت کے پڑھے جائیں۔ (مرقاۃ المفاتیح، جلد 3، صفحہ 297، مطبوعہ كوئٹہ)

حدیثِ پاک میں وتر کو مغرب کی طرح ادا کرنے کی ممانعت صرف تنزیہی ہے،لہٰذا اگر کوئی اس سے پہلے نفل نہیں پڑھتا، تو گناہ گار نہیں، جیسا کہ مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

”المراد منه النهي التنزيهي عن الاقتصار في صلاة الليل على ثلاث ركعات“

ترجمہ: اس حدیث پاک میں تین رکعت وتر پر اقتصار کرنے سے ممانعت، تنزیہی مراد ہے۔ (مرقاۃ المفاتیح، جلد 3، صفحہ 297، مطبوعہ کوئٹہ)

(3) مذکورہ حدیثِ پاک کے اس جملے "وتر کو مغرب کی نماز سے مشابہ نہ کرو" کی مرادیہ بیان کرنا کہ "وترمیں پہلے دو رکعتیں پڑھ کر سلام پھیریں گے، پھر ایک رکعت مزیدپڑھیں گے، تاکہ مغرب و وتر میں مشابہت نہ ہو۔" سراسر غلط اور خود اس حدیثِ پاک کے مضمون، بلکہ دیگر کئی احادیث کے بھی خلاف ہے، جس کی تفصیل درج ذیل ہے۔

اوّلاً تو یوں کہ حدیث ِ پاک سے کہیں یہ ثابت نہیں ہورہا کہ مغرب اور وتر میں فرق کا طریقہ دو رکعت پرسلام پھیرکرایک رکعت مزید پڑھنا ہے،بلکہ حدیثِ پاک کے مکمل الفاظ دیکھے جائیں، تو یہ واضح ہو جاتا ہے کہ یہ مرادلیناخوداسی حدیث کے خلاف ہے، کیونکہ حدیثِ پاک کے ظاہرسے معلوم ہورہا ہے کہ یہاں در حقیقت رکعات کی تعداد میں مشابہت سے منع کیا جا رہا ہے، چنانچہ شروع میں تین رکعات وتر سے منع کرتے ہوئے، نمازِ مغرب کی مشابہت سے منع کیاگیا، پھر آخر میں پانچ اور سات رکعات وتر پڑھنے کا حکم دیا گیا، جس کا واضح مطلب یہی ہے کہ رکعات کی تعداد کے معاملے میں نمازِ وترکونمازِ مغرب کے مشابہ نہ پڑھو، بلکہ اس سے پہلے دو، چار رکعات نفل نماز ادا کر کے پانچ یا سات رکعات پڑھا کرو۔ حدیثِ پاک کے مکمل الفاظ اوپر ذکر کر دئیے گئے۔

ثانیاً یہ کہ اس معنیٰ ومراد کی تائید دیگر کئی صحیح احادیث سے بھی ہوتی ہے کہ جن میں واضح بیان ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم وتر سے پہلے دو، چاریا چھ نفل پڑھا کرتے تھے، چنانچہ مسندِ احمدمیں ہے:

”فاستن و توضأ، و صلى ركعتين، حتى صلى ستا، ‌ثم ‌أوتر بثلاث، و صلى ركعتين“

یعنی نبی پاک صلی اللہ علیہ و سلم نے بیدار ہو کر مسواک کی، پھر وضو فرما کر دو رکعت پڑھیں، پھر چھ رکعات مزید ادا فرمائیں، پھرتین رکعت وتر ادا کیے اور (فجر کا وقت شروع ہونے پر فجر کی) دو رکعتیں (سنتیں) ادا فرمائیں۔ (مسند احمد، جلد 5، صفحہ 313، مطبوعہ مؤسسۃ الرسالۃ)

یونہی صحیح مسلم، مسندِ ابو یعلیٰ، سنن کبریٰ، معجم کبیروغیرہا کتبِ احادیث میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے،

و اللفظ للاوّل: ”ثم قام فصلى ركعتين، فأطال فيهما القيام و الركوع و السجود، ثم انصرف فنام حتى نفخ، ثم فعل ذلك ثلاث مرات ست ركعات، كل ذلك يستاك و يتوضأ و يقرأ هؤلاء الآيات، ‌ثم ‌أوتر ‌بثلاث“

یعنی: نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے نیندسے بیدار ہوکر دو رکعتیں ادافرمائیں، جن میں قیام، رکوع و سجود کو لمبا کیا، پھر آرام فرما ہو گئے، پھر بیدار ہوکر ایسا کیا، یوں تین مرتبہ میں چھ رکعات ادا فرمائیں، ہردفعہ مسواک کر کے وضو فرمایااوریہ آیات تلاوت کیں، پھر تین رکعات وترادافرمائے۔ (صحیح مسلم، جلد 2، صفحہ 282، مطبوعہ دار الطباعة العامرة)

ثالثاً حدیثِ پاک کی یہ مراد لینا کئی صحیح احادیث کے خلاف ہے، چنانچہ مستدرک للحاکم وغیرہ کئی کتبِ احادیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم وتر میں دو رکعت پرسلام نہیں پھیرتے تھے، بلکہ تین رکعات پر ہی سلام پھیرتے تھے، چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں:

”كان رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم لا يسلم في الركعتين الأوليين من الوتر“ هذا حديث صحيح على شرط الشيخين، و لم يخرجاه و له شواهد“

ترجمہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ و الہ و سلم وتر کی پہلی دو رکعتوں پر سلام نہیں پھیرتے تھے۔ امام حاکم رحمہ اللہ لکھتے ہیں یہ حدیث شیخین کی شرط پر صحیح ہے، لیکن انہوں نے اس کو نقل نہیں کیا اور اس کے مزید بھی شواہد ہیں۔ (المستدرک للحاکم، کتاب الوتر، جلد 1، صفحہ 446، مطبوعہ دار الكتب العلميه، بیروت)

اور دوسری روایت میں یہ الفاظ ہیں:

”يوتر بثلاث لا يسلم إلا في آخرهن“

یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم تین رکعات وتر ادا فرماتے اور سلام آخری رکعت میں ہی پھیرتے تھے۔ (المستدرك للحاکم، كتاب الوتر، جلد 1، صفحہ 447، مطبوعہ دار الكتب العلميه، بیروت)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تین وتر ملا کر پڑھتے اور تیسری کے بعد ہی سلام پھیرتے تھے، جیسا کہ سنن نسائی، سنن ابی داؤد، سنن ابن ماجہ، مستدرک للحاکم، مصنف ابن ابی شیبہ، سنن کبریٰ للبیہقی، و غیرہا کتب ِ احادیث میں ہے،

و اللفظ للاول:”عن أبي بن كعب قال كان رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم يقرأ في الوتر ب ﴿سبح اسم ربك الاعلى﴾،و في الركعة الثانية ب ﴿قل يا ايها الكافرون﴾، و في الثالثة ب ﴿قل هو الله احد﴾، و لا يسلم إلا في آخرهن“

ترجمہ: حضرت ابی ابن کعب رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وتر کی پہلی رکعت میں سورۃ الاعلیٰ ، دوسری رکعت میں سورۃ الکافرون اور تیسری رکعت میں سورۃ الاخلاص پڑھتے تھے اور آخر میں ہی سلام پھیرتے تھے۔ (سنن نسائی، جلد 3، صفحہ 235، مطبوعہ القاھرہ)

رابعاً مذکورہ معنیٰ مراد لینا صحابہ کرام علیہم الرضوان کے عمل کے بھی خلاف ہے، متعدد صحابہ کرام علیہم الرضوان نے نمازِ وتر کو نمازِ مغرب ہی کی طرح قرار دیا ہے، چنانچہ مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے:

”قال عبد اللہ: الوتر ثلاث كصلاة المغرب وتر النهار“

یعنی: حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ وتر، دن کے وتر نمازِ مغرب کی طرح تین رکعات ہیں۔ (مصنف ابن ابی شیبۃ، جلد 2، صفحہ 81، مطبوعہ دار التاج، لبنان)

اس حدیث میں نمازِ وترکونمازِ مغرب کے مشابہ قرار دیا گیا ہے جس میں یہ بھی شامل ہے کہ نمازِ مغرب کی طرح وترکی نماز کی دوسری رکعت میں سلام نہیں پھیرا جائے گا، لہٰذا یہ کہناکہ دوسری رکعت پرسلام پھیراجائے گا، صحیح احادیث و روایات کے خلاف ہے۔

خامساً دو رکعت پرسلام پھیر کراس کے بعدالگ سے ایک رکعت پڑھناصلاۃ ِ بتیراء ہے اورصلاۃِ بتیرا یعنی ایک رکعت کی نمازسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے منع فرمایا ہے، چنانچہ التمہید لابن عبد البر میں ہے:

”عن أبي سعيد أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نهى عن البتيراء أن يصلي الرجل ركعة واحدة يوتر بها“

ترجمہ: حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے نبی کریم علیہ الصلوۃ و السلام نے بتیرا سے منع فرمایا اور بتیرا یہ ہے کہ آدمی ایک رکعت اکیلی پڑھے۔ (التمھید لابن عبد البر، باب نون، جلد 13، صفحہ 254، مطبوعہ وزارۃ عموم الاوقاف)

سادساً اگر حدیثِ پاک کے الفاظ

"و لا تشبهوا بصلاة المغرب"

کی وہی مرادتسلیم کر لی جائے کہ جوبعض لوگ بیان کرتے ہیں،کہ وترکومغرب کی طرح ایک ساتھ نہ پڑھوبلکہ دورکعت الگ اورایک رکعت الگ پڑھو تو پھر اس کا جواب یہ ہوگا کہ یہ ابتدائے اسلام پر محمول ہے یعنی پہلے یہ حکم تھااورپھربعدمیں اسے ترک کردیا گیا جیسا کہ وتر کی رکعات کی تعداد کے حوالے سے کثیر احادیث شاہدہیں کہ وتر تین ہی ہیں اور پڑھے بھی اکٹھے ایک سلام کے ساتھ جائیں گےلہذا امتِ مسلمہ کوچاہیے کہ اسی کے مطابق دورکعتوں پر سلام پھیرنے کی بجائے تین رکعتیں ادا کریں، تیسری پردعائے قنوت پڑھ کر آخر میں سلام پھیردیں۔ چنانچہ مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

”مع أنه لو صح لحمل على أول الأمر لما سيأتي من الأحاديث الصحيحة الصريحة أنه صلى الوتر ثلاثا موصولا“

ترجمہ: اگر یہ معنی درست مان لیا جائے،تویہ ابتدائے اسلام پر محمول ہوگا،کیونکہ عنقریب صحیح اور صریح احادیث آرہی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے تین وتر ملا کر پڑھے۔ (مرقاۃ المفاتیح، جلد 3، صفحہ 297، مطبوعہ کوئٹہ)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: ابو الفیضان عرفان احمد مدنی

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتویٰ نمبر: FSD-9347

تاریخ اجراء: 30 ذیقعدہ 1446 ھ / 28 مئی 2025 ء