Beti Ki Shadi Ke Liye Jama Kiye Gaye Paison Par Zakat Ka Hukum

 

بیٹیوں کی شادی کے لئے جمع کئے گئے پیسوں پر زکوٰۃ لازم ہوگی؟

مجیب:مولانا محمد نور المصطفیٰ عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-3473

تاریخ اجراء: 16رجب المرجب 1446ھ/17جنوری2025ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   سوال یہ ہے کہ میرے والد  اپنی بیٹیوں کی شادی کے لئے پیسہ جمع کر رہے ہیں ، تو ان پیسوں کی زکوٰۃ بنے گی یا نہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   شرائط پائے جانے کی صورت میں بیٹی یا بیٹے کی شادی کے لئے جمع کئے گئے پیسے پر بھی زکوۃ فرض ہوگی۔ یعنی اگروہ رقم قرض اور حاجت اصلیہ سے فارغ ہو کرخودیادوسرے مال زکاۃ سے مل کر نصاب کے برابر پہنچے تو نصاب کا سال پورا ہونے پراس کی زکوۃ ادا کرنا واجب ہوگا۔اگرپہلے سے اس کی جنس کے نصاب کاسال چل رہاہے توجب اس   کی جنس کاسال پوراہوگاتواس کاسال بھی مکمل ہوناشمارہوگااوراگرپہلے سے اس کی جنس کانصاب نہیں چل رہاتوپھرجب سے اس کانصاب ہوااس کے بعدسے جب سال مکمل ہوگاتواس کاسال پوراہوناشمارہوگا۔

   نوٹ:یادرہے کہ !سونا،چاندی،روپے ،پیسے، پرائزبانڈ،مال تجارت یہ سب اس معاملے میں ایک ہی جنس شمار ہوتے ہیں ۔

   رد المحتار میں ہے” إذا أمسكه لينفق منه كل ما يحتاجه فحال الحول، وقد بقي معه منه نصاب فإنه يزكي ذلك الباقي، وإن كان قصده الإنفاق منه أيضا في المستقبل لعدم استحقاق صرفه إلى حوائجه الأصلية وقت حولان الحول “ترجمہ:کسی شخص نے اپنے پاس پیسے اس لئے محفوظ کرکےرکھے ہوں کہ جہاں بھی حاجت پیش آئے وہاں ان میں سے خرچ کرے ،پھرسال پوراہوااوراس کے پاس ان میں سے نصاب کے برابر پیسے بچے ہوئے ہوں تووہ ان بچے ہوئے پیسوں کی زکوٰۃ ادا کرے گا اگرچہ اس کایہ ارادہ بھی ہو کہ مستقبل میں ان میں سے خرچ کرے گاکیونکہ سال پورا ہونے کے وقت ان پیسوں کا حاجت اصلیہ میں خرچ کئے جانے کا استحقاق نہیں ہے ۔(رد المحتار علی الدر المختار،ج 2،ص 262،دار الفکر،بیروت)

   فتاوی ہندیہ میں ہے” ومن كان له نصاب فاستفاد في أثناء الحول مالا من جنسه ضمه إلى ماله وزكاه المستفاد من نمائه أولا وبأي وجه استفاد ضمه سواء كان بميراث أو هبة أو غير ذلك، ولو كان من غير جنسه من كل وجه كالغنم مع الإبل فإنه لا يضم هكذا في الجوهرة النيرة“ترجمہ:جس کے پاس نصاب ہو اور دوران سال اسی جنس کا اور مال حاصل ہو تو اسے پہلے والے مال کے ساتھ ملائے گا اوراس کی زکاۃ اداکرے گا،حاصل ہونے والامال پہلے مال کے نفع سے حاصل ہواہویانہیں،پھر یہ حاصل ہونے والا مال چاہے کسی طریقے سے بھی حاصل ہوا ہو ،چاہے میراث یا ہبہ وغیرہ کے ذریعےبہرصورت اسے پچھلے کے ساتھ ملائے گا،اور اگرحاصل ہونے والامال ہراعتبارسے غیرجنس  جیسے اونٹ کے ساتھ بکری   تو اس کو نہیں ملایا جائے گا،یونہی الجوھرۃ النیرۃ میں ہے۔(فتاوی ہندیہ،ج 1،ص 175،دار الفکر،بیروت)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم