بھتیجی کو زکوٰۃ دینا

 

بھتیجی کو زکوٰۃ دینا

مجیب:مولانا محمد شفیق عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-3689

تاریخ اجراء:20رمضان المبارک 1446ھ/21مارچ2025ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   بھتیجی کو زکوۃ دینا کیسا ؟ رہنمائی فر مادیں ۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   بھتیجا بھتیجی اگر مستحق ِزکوۃ ہوں (یعنی شرعی فقیرہوں کہ حاجت اصلیہ  سے زائداورقرض اگرہوتواس کونکالنے کے بعدنصاب کے برابر(یعنی ساڑھے باون تولے چاندی یااس کی قیمت کے برابر )کسی قسم کے مال کے مالک نہ ہوں)اور غیر سیداورغیرہاشمی ہوں تو انہیں زکوۃ دینا جائز بلکہ افضل ہے  اوراس کاڈبل ثواب ہے کہ صلہ رحمی کا  بھی  ثواب ہے اور صدقے کابھی ۔ 

   ردالمحتار میں ہے"عن أبي هريرة مرفوعا إلى النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال «يا أمة محمد والذي بعثني بالحق لا يقبل الله صدقة من رجل وله قرابة محتاجون إلى صلته ويصرفها إلى غيرهم والذي نفسي بيده لا ينظر إليه الله يوم القيامة» . اهـ. رحمتي والمراد بعدم القبول عدم الإثابة عليها وإن سقط بها الفرض؛ لأن المقصود منها سد خلة المحتاج وفي القريب جمع بين الصلة والصدقة. وفي القهستاني: والأفضل إخوته وأخواته ثم أولادهم ثم أعمامه وعماته ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ  و سلم نے فرمایا: اے امت محمد (صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ و سلم ) اس کی قسم جس نے مجھے حق کے ساتھ بھیجا، اللہ پاک کسی شخص کا صدقہ قبول نہیں فرماتا اس حال میں کہ اس کے اہل قرابت صلہ رحمی کے محتاج ہوں اور وہ صدقہ غیروں کو دے اور قسم اس ذات کی جس کے دست قدرت میں میری جان ہے،قیامت والے دن اللہ پاک اس کی طرف نظر رحمت نہیں فرمائے گا۔ (رحمتی) اورقبول نہ ہونے سے مراد اس پر ثواب نہ ملنا ہے، اگرچہ اس سے فرض ساقط ہو جائے گا۔ کیونکہ مقصود محتاج کی حاجت پوری کرنا ہے۔ اور قریبی رشتہ دار کو دینے میں صلہ رحمی اور صدقہ دونوں ہیں۔ اور قہستانی میں ہے: افضل یہ ہے کہ اپنے بھائیوں اور بہنوں کو دے، پھر ان کی اولادوں کو، پھر اپنے چچوں اور پھوپھیوں کو۔(ردالمحتار ، جلد 2 ، صفحہ 353،354 ، دار الفکر ، بیروت )

   عالمگیری میں ہے"والافضل في الزكاة و الفطر والنذور الصرف اولا الى الاخوة الاخوات" ترجمہ : زکوۃ فطرہ اور منت (کی رقم وغیرہ) پہلے بھائی بہنوں کو دینا افضل ہے۔( فتاوی ہندیہ ، جلد 1 ، صفحہ 190 ، دار الفكر  بیروت)

   فتاوی رضویہ میں ہے ” آدمی جن کی اولاد میں خود ہے یعنی ماں باپ، دادا دادی، نانا نانی یا جو اپنی اولاد میں ہیں یعنی بیٹا بیٹی، پوتا پوتی، نواسا نواسی اور شوہر و زوجہ ان رشتوں کے سوا اپنے جو عزیز قریب حاجتمند مصرف زکوۃ ہیں، اپنے مال کی زکوۃ انہیں دے جیسے بہن بھائی ، بھتیجا ، بھتیجی، ماموں ، خالہ چچا ، پھوپھی کہ انھیں دینے میں دونا ثواب ہے۔"(فتاوی رضویہ، جلد 10 ، صفحہ 264 ، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

   بہار شریعت میں ہے ”زکاۃ وغیرہ صدقات میں افضل یہ ہے کہ اولا اپنے بھائیوں بہنوں کو دے پھر اُن کی اولاد کو پھر چچا اور پھوپیوں کو پھر ان کی اولاد کو پھر ماموں اور خالہ کو پھر اُن کی اولاد کو پھر ذوی الارحام کو۔ “(بہار شریعت ،ج 01، ص 933، مطبوعہ:  مكتبة المدينہ)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم