متعدد افراد کا ایک آدمی کو زکوٰۃ کی ادائیگی کا وکیل بنانا

متعدد افرادکا ایک آدمی کو زکوٰۃ کی ادائیگی کا وکیل بنا نا

مجیب:مولانا محمد آصف عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-3680

تاریخ اجراء:24 رمضان المبارک 1446 ھ/ 25 مارچ 2025 ء

دار الافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   ہماری جوائنٹ فیملی ہے،ہمارے گھر کے متعدد افراد ،گھر کے ہی ایک فرد کو زکوٰۃ کی رقم دے کر وکیل بنادیتے ہیں کہ مستحق تک زکوٰۃ پہنچا دو، توکیا کئی افراد ایک آدمی کو زکوٰۃ کی ادائیگی کا وکیل بنا سکتے ہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

   جی ہاں! کئی افراد کا ایک شخص کوزکوۃ کی رقم دے کر وکیل بنادینا کہ وہ مستحق  افراد( مثلا فقیر شرعی) تک زکوۃ پہنچادے، یہ جائز ہے، اس میں کوئی حرج نہیں۔ البتہ! زکوۃ دینے والوں اور وکیل، دونوں  کو اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ  زکوۃ کا سال مکمل ہونے پر فوراً زکوۃ ادا کردیں  کہ سال مکمل ہونے کے بعد بغیر وجہ شرعی تاخیر  کرنا گناہ ہے، اور فقط زکوۃ ادا کرنے کے لیے بنائے گئے وکیل کے ہاتھ میں زکوۃ کی رقم جانے سے زکوۃ ادا نہیں ہوتی ،بلکہ جب فقیر شرعی یا اس کے نائب کا قبضہ ہوگا تب زکوۃ ادا کرنا کہلائے گا۔

   در مختار میں ہے ” و لو خلط زكاة موكليه ضمن و كان متبرعا إلا إذا وكله الفقراء۔“ ترجمہ: وکیل نے اپنے مؤکلین کی زکوٰۃ مکس کردی تو وہ ضامن ہوگا اور متبرع قرار پائے گا مگرجبکہ فقراء نے  اسے زکاۃ لینے کاوکیل بنایاہو۔

   اس کے تحت ردالمحتارمیں ہے "قال في التتارخانية: إلا إذا وجد الإذن۔۔۔۔(قوله إذا وكله الفقراء) لأنه كلما قبض شيئا ملكوه و صار خالطا مالهم بعضه ببعض و وقع زكاة عن الدافع"ترجمہ:تتارخانیہ میں فرمایا:مگرجبکہ دینے والوں کی طرف سے اجازت پائی جائے (تو اب ان کی زکوۃ مکس کرنے میں کوئی حرج نہیں) جب فقراء نے اسے وکیل بنایاہوتواب وہ متبرع نہیں ہوگا بلکہ دینے والوں کی زکوۃ اداہوجائے گی کیونکہ  جب جب وہ کسی چیزپرقبضہ کرے گاتوفقراء اس کے مالک بن جائیں گے اوروہ فقراء کے مال کوآپس میں مکس کرنے والابنے گا (نہ کہ زکوۃ دینے والوں کے مال کومکس کرنے والے بنے گا)اوریوں دینے والے کی زکوۃ اداہوجائے گی۔ (در مختار مع رد المحتار، ج 2، ص 269، دار الفکر، بیروت)

   بہار شریعت میں ہے” ایک شخص چند زکاۃ دینے والوں کا وکیل ہے اور سب کی زکاۃ ملا دی تو اُسے تاوان دینا پڑے گا اور جو کچھ فقیروں کو دے چکا ہے وہ تبرع ہے یعنی نہ مالکوں سے اسکا معاوضہ پائے گا نہ فقیروں سے، البتہ اگر فقیروں کو دینے سے پہلے مالکوں نے ملانے کی اجازت دے دی تو تاوان اس کے ذمہ نہیں۔" (بہار شریعت، ج 1، حصہ 5، ص 887، مکتبۃ المدینہ)

   ان جزئیات سے ثابت ہواکہ کئی افرادایک شخص کواپنی زکاۃ کی ادائیگی کاوکیل کرسکتے ہیں اوریہ بھی ثابت ہواکہ جب تک فقیریااس کے نائب کومال زکوۃ پرقبضہ نہ دیاجائے تواس وقت تک زکوۃ ادانہیں ہوتی ،اگرفقیریااس کے نائب کوزکوۃ پرقبضہ دے دیاتواب زکوۃ اداہوگئی۔

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم