
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
ایک شخص ہے جس کے پاس سونا چاندی رقم وغیرہ کچھ نہیں ہے صرف گھر میں اپنی ضرورت کا سامان ہے، لیکن اس کے پاس اپنی بیٹی کے جہیز کے لیے خریدا ہوا سامان موجود ہے جو اس نے دینا ہے، ابھی تک بیٹی کی شادی نہیں ہوئی، کیا ایسا شخص زکاۃ لے سکتا ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
دریافت کی گئی صورت میں اس شخص نے جہیز کے سامان کا اگر بیٹی کو ابھی تک مالک نہیں کیا تو وہ اسی کی ملکیت میں ہے، ایسی صورت میں اگر اس پر قرض نہیں ہے اور اگر ہے تو اس کو مائنس کرنے اورحاجت اصلیہ نکالنے کے بعد اس سامان کی قیمت تنہا یا دیگر اموال و سامان کے ساتھ مل کر کم ازکم ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر ہو، تو وہ زکوۃ نہیں لے سکتا۔ یا مال نصاب کے برابرنہیں ہے لیکن وہ ہاشمی یاسید ہے، تب بھی زکوۃ نہیں لے سکتا۔
در مختار میں ہے
تجب۔۔۔ علی کل۔۔۔ مسلم۔۔۔ ذی نصاب فاضل عن حاجتہ الأصلیۃ۔۔۔ و إن لم ینم۔۔۔ و ۔۔۔ بھذا النصاب تحرم الصدقۃ۔۔۔ و تجب الأضحیۃ و نفقۃ المحارم علی الراجح
یعنی: راجح قول پر ہر ایسا مسلمان جو حاجت اصلیہ سے زائد نصاب، جو اگرچہ مال نامی نہ ہو، کا مالک ہو اس پر صدقہ فطر واجب ہوتا ہے، اور اس پر زکاۃ لینا حرام، محارم کا نفقہ اور قربانی واجب ہوتی ہے۔ (ملتقطا من الدر المختار، جلد 2، صفحہ 139، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ، بیروت)
رد المحتار میں ہے
فان کان لہ فضل عن ذلک تبلغ قیمتہ مائتی درھم حرم علیہ اخذ الصدقۃ
ترجمہ: اگر اس کے پاس اس (یعنی حاجتِ اصلیہ) سے زائد ہو جس کی قیمت دو سو درھم تک پہنچتی ہو تو اس کے لیے صدقہ لینا حرام ہے۔ (رد المحتار، جلد 3، صفحہ 346، مطبوعہ: کوئٹہ)
بحر الرائق میں ہے
(قوله و بني هاشم) أي لا يجوز الدفع لهم لحديث البخاري «نحن - أهل بيت - لا تحل لنا الصدقة»
ترجمہ: (مصنف کا قول: اور بنو ہاشم) یعنی ان کو صدقہ دینا جائز نہیں کیونکہ بخاری شریف کی حدیث پاک ہے کہ ہم اہل بیت ہیں، ہمارے لیے صدقہ حلال نہیں ہے۔ (البحر الرائق، جلد 2، صفحہ 265، مطبوعہ: دارالکتب الاسلامی)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مولانا محمد ابوبکر عطاری مدنی
فتویٰ نمبر: WAT-3994
تاریخ اجراء: 11 محرم الحرام 1447ھ / 07 جولائی 2025ء