
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
کیا فرماتے ہیں علمائے دین مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ زید سال کے ابتدا میں مالک نصاب ہے زکوۃ واجب ہوگئی پھر سال کے درمیان میں سارا مال ختم ہو گیا اور انتہائے سال میں زید دوبارہ مالک نصاب ہو گیا تو کیا دوران سال میں سارے مال کا ختم ہونا زکوٰۃ کے واجب ہونے نہ ہونے میں کوئی ضرر رکھتا ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
پوچھی گئی صورت میں اگر درمیان سال میں نصاب والا مال مکمل ہلاک ہو گیا (مثلا فنا ہوگیا یا تجارتی مال تھا اور تجارت کی نیت ختم کردی وغیرہ) تو اس کے بعد جب دوبارہ یہ شخص صاحب نصاب ہوگا تو اس وقت سے اسلامی سال شمار کیا جائے گا۔ لیکن اگر درمیان سال سارا مال ہلاک نہ ہو، بلکہ اس میں سے کچھ نہ کچھ باقی ہو تو ایسی صورت میں اگر سال پورا ہونے سے قبل کسی بھی وقت پھر بقدر نصاب مال آ گیا تو اس سارے مال پر زکوۃ لازم ہو جائے گی۔
تنویر الابصار مع الدر المختار میں ہے
(و شرط كمال النصاب في طرفي الحول) في الابتداء للانعقاد و في الانتهاء للوجوب (فلا يضر نقصانه بينهما) فلو هلك كله بطل الحول۔
ترجمہ: سال کے دونوں اطراف (ابتداء و انتہاء) میں نصاب کا مکمل ہونا شرط ہے، ابتدائے سال میں انعقاد کے لیے اور انتہائے سال میں وجوب کے لیے، پس درمیانِ سال نصاب کے کم ہونے سے کوئی ضرر نہیں ہو گا، اور اگر سارا مال ہلاک ہو گیا تو سال باطل ہو جائے گا۔ اس کے تحت رد المحتار میں ہے
قال فی النھر: منہ ای من الھلاک ما لو جعل السائمۃ علوفۃ؛ لان زوال الوصف کزوال العین
ترجمہ: نہرمیں فرمایا: ہلاک (کی صورتوں) میں سے سائمہ کو علوفہ بنا لینابھی ہے؛ کیونکہ وصف کا زائل ہونا، عین کے زائل ہونے کی طرح ہے۔ (رد المحتارمع الدر المختار، کتاب الزکاۃ، جلد 03، صفحہ 302، دار الفکر، بیروت)
فتاوی رضویہ میں ہے"ہاں اتنا ضرور ہے کہ اصل مال سے کوئی پارہ محفوظ رہے، سب با لکل فنا نہ ہوجائے، ورنہ مِلک اوّل سے شمار سال جاتا رہے گا اور جس دن ملک جدید ہوگی اُس دن سے حساب کیا جائے گا۔ مثلاًیکم محرم کو مالکِ نصاب ہُوا، صفر میں سب مال سفر کر گیا، ربیع الاوّل میں پھر بہار آئی، تو اسی مہینہ سے حول گنیں گے، حسابِ محرم جاتا رہا۔درمختار میں ہے:
شرط کمال النصاب فی طرفی الحول فی الابتداء للانعقاد و فی الانتھاء للوجوب فلا یضر نقصانہ بینھما فلو ھلک کلہ بطل الحول۔
(سال کےدونوں اطراف میں کمالِ نصاب کی شرط ہے، ابتداء میں انعقاد کے لیے اور انتہا ء میں وجوب کے لئے، درمیانی مدّت میں کمی نقصان دہ نہیں۔ ہاں اگر سارا مال ہلاک ہوگیا تو سال باطل ہوجائے گا۔)" (فتاوی رضویہ، جلد 10، صفحہ 89، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مولانا محمد نور المصطفیٰ عطاری مدنی
فتویٰ نمبر: WAT-4150
تاریخ اجراء: 28 صفر المظفر 1447ھ / 23 اگست 2025ء