
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
میرے والد صاحب نے اپنا گھر فروخت کر دیا ہے اور اس کی مکمل قیمت وصول کر لی ہے، قیمت وصول کرنے کے بعد والد صاحب نےنئے گھر کا سودا کر کے، اس کا بیعانہ بھی دے دیا ہے، لیکن ابھی تک نہ تو مکان پر قبضہ لیا ہےاور نہ ہی رجسٹری کروائی ہے، مکان پر قبضہ اور بقیہ رقم کی ادائیگی کا وقت رمضان المبارک کے بعد کا طے ہوا ہے۔ میرے والد صاحبِ نصاب بھی ہیں اور ان کا نصاب کا سال 27 رمضان المبارک کو مکمل ہوتا ہے، تو اب جو رقم مکان بیچ کر حاصل ہوئی تھی وہ والد صاحب نے رمضان المبارک کے بعد دوسرے مکان کی قیمت کے طور پر ادا کرنی ہے، تو کیا سال پورا ہونے کے وقت اس رقم پر بھی زکوٰۃ لازم ہوگی؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
پوچھی گئی صورت میں اگر گھر بیچنے کے لئے نہیں خریدا، تو حکم یہ ہے کہ جتنی قیمت میں آپ کے والد نے گھر کی خریداری کی ہے اس میں جتنی ادائیگی باقی ہے، وہ رقم آپ کے والدپر قرض ہے، لہٰذا جتنی رقم آپ کے والد کے پاس موجود ہے، اس میں سے وہ اتنی رقم مائنس کریں گے جو رمضان کے بعد مکان کی قیمت کے طور پر دینی ہے ، پھر اس کے بعدجو مالِ زکوٰۃ بچے وہ بقدر نصاب ہے، تو اس باقی بچے ہوئے مال پر زکوٰۃ ادا کرنی ہوگی۔
سیدی اعلیٰ حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن فرماتے ہیں: ”دَینِ عبد (یعنی بندوں میں جس کا کوئی مطالبہ کرنے والا ہو اگرچہ دَین حقیقۃً اللہ عزو جل کا ہو، جیسے دَینِ زکوٰۃ جس کا حقِ مطالبہ بادشاہِ اسلام اعزہ اللہ نصرہ کو ہے) انسان کے حوائجِ اصلیہ سے ہے، ایسا دَین جس قدر ہوگا اتنا مال مشغول بحاجتِ اصلیہ قراردے کر کالعدم ٹھہرےگا اور باقی پر زکوٰۃ واجب ہوگی اگر بقدر نصاب ہو۔“ (فتاویٰ رضویہ، جلد 10، صفحہ 126، رضا فاؤنڈیشن لاہور)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مولانا سید مسعود علی عطاری مدنی
فتویٰ نمبر: Web-2215
تاریخ اجراء: 02 رمضان المبارک 1446ھ / 03 مارچ 2025ء