
مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر:HAB-0543
تاریخ اجراء:24 رمضان المبارک 1446 ھ/25 مارچ 2025 ء
دار الافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ میں بچوں اور بچیوں کے سوٹ بیچتا ہوں، بازاروں میں سوٹ بیچنے وا لے لوگ ہمارے پاس سے مال لے جاتے ہیں لیکن وہ ادائیگی بعد میں کرتے ہیں۔ اب اسی طرح میرے ایک پڑوسی نے مجھ سے 65 ہزار روپے کا مال اٹھایا تھا، لیکن کافی مہینے گزر گئے اس نے ابھی تک مجھے پیسے نہیں لوٹائے، وہ مالی اعتبار سے کافی کمزور ہے اور زکاۃ لینے کا مستحق بھی ہےاور اس نے مجھے مال کے متعلق بتایا کہ وہ اس نے بیچ تو دیا لیکن تمام رقم گھر کے اخراجات میں صرف ہوگئی اور اب وہ بہت پریشان ہے۔
اب مجھے یہ پوچھنا ہے کہ میری زکاۃ ٹوٹل ایک لاکھ پچاس ہزار روپے بنتی ہے جو میں 26 ویں روزے کو ادا کرتا ہوں، تو اگر میں میرےپڑوسی والے 65 ہزار روپے زکاۃ کی نیت کرکے معاف کردوں اور اس کے علاوہ صرف 85 ہزار روپے مزید ادا کردوں تو کیا میری زکاۃ ادا ہوجائے گی؟ اس طرح اس کا قرض بھی اترجائے گا۔
یہ بھی رہنمائی فرمادیں کہ دوران سال میں نے اپنے گھریلو استعمال کیلئے کچھ برتنوں کے سیٹ لئے تھے اور اس کے بدلے میں برتن والے نے مجھ سے اپنے بچوں اور بچیوں کے سوٹ لئے تھے، تو کیا سال کے آخر میں ان برتنوں کو بھی زکاۃ میں شامل کرنا ہوگا؟ جو برتن لئے تھے، وہ ابھی تک موجود ہیں اور زیر استعمال ہیں۔
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
پوچھی گئی صورت میں آپ اُن 65 ہزار روپے کو زکاۃ میں شمار نہیں کرسکتے، اگر زکاۃ کی نیت سے معاف کریں گے تو اس طرح زکاۃ ادا نہیں ہوگی، کیونکہ یہاں جو 65 ہزار روپے آپ کے پڑوسی کے ذمے لازم ہیں، وہ دین ہیں اور دین کی معافی شرعی اعتبار سے اسقاط (اپنا حق ساقط کرنا) ہے، تملیک نہیں، جبکہ زکوۃ کی ادائیگی میں تملیک فقیر (فقیر کو مالک بنانا) شرط ہے، لہٰذا اس طرح اس رقم کو زکاۃ کی نیت سے معاف کردینے سے زکاۃ ادا نہیں ہوگی۔
ہاں اس کیلئے یہ صورت اپنائی جاسکتی ہے کہ آپ اپنی زکاۃ میں سے 65 ہزار روپے اپنے اس شرعی فقیر پڑوسی کو دیں جبکہ وہ غیر سید، غیر ہاشمی ہو اور جب وہ اس رقم پر قبضہ کرلے تو آپ اس سے اپنے سابقہ قرض (65 ہزر روپے) کا مطالبہ کریں اور وہ آپ کو قرض کی مد میں یہ والی رقم ادا کردے، اس طرح آپ کی زکاۃ بھی ادا ہوجائے گی اور آپ کے پڑوسی پر قرض بھی باقی نہیں رہے گا، چونکہ اس صورت میں زکاۃ کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ ایک مقروض کا قرض بھی ادا ہورہا ہے،اس لئے فقہاء کرام علیہم الرحمۃ نے اس صورت کو افضل بھی قرار دیا ہے۔
رہا یہ سوال کہ مالِ تجارت یعنی سوٹ کے بدلے اپنے گھریلو استعمال کیلئے جو برتن خریدے تو اس کی زکاۃ لازم ہوگی یا نہیں؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس کی زکاۃ لازم نہیں ہوگی، کیونکہ اصول كے مطابق مالِ تجارت کے بدلے کسی چیز کو خریدنا، اگرچہ اس کو دلالۃً نیت تجارت مانا گیا ہے، لیکن یہ اس وقت ہے جبکہ مال تجارت کے بدلے کسی چیز کو خریدتے وقت صراحۃً استعمال کی نیت نہ ہو، لہٰذا اگر استعمال کی نیت سے کوئی چیز خریدی تو اب اس کو مالِ تجارت نہیں مانا جاتا اور اس کی زکاۃ بھی لازم نہیں ہوتی۔
کسی کےذمے میں لازم دین کو اپنے موجودہ مال کی زکاۃ کی نیت سے معاف کرنے سے زکاۃ ادا نہیں ہوگی، چنانچہ ملک العلماء امام کاسانی علیہ الرحمۃ بدائع الصنائع میں لکھتے ہیں :”و أداء الدين عن العين لا يجوز بأن كان له على فقير خمسة دراهم و له مائتا درهم عين حال عليها الحول فتصدق بالخمسة على الفقير ناويا عن زكاة المائتين؛ لأنه أداء الناقص عن الكامل فلا يخرج عما عليه“ ترجمہ: اور عین مال کی طرف سے دین کو ادا کرنا جائز نہیں، اس کی صورت یہ ہے کہ کسی کے شرعی فقیر پر پانچ درہم قرض ہوں اور خود اس کے پاس دو سو دراہم کا نصاب زکاۃ موجود ہے جس پر سال بھی گزرچکا ہے تو یہ فقیر کےذمے میں لازم پانچ درہم اس پر اس نیت سے صدقہ کردے کہ اس کی دو سو درہم والی زکاۃ ادا ہوجائے (تو یہ جائز نہیں) کیونکہ یہ کامل کی طرف سے ناقص کو ادا کرنا ہے، لہٰذا جو اس پر زکاۃ لازم ہے، یہ اس سے عہدہ برآں نہیں ہوگا۔(بدائع الصنائع، کتاب الزکاۃ، فصل: الذی یرجع الی المؤدی، ج 02، ص 43، دار الكتب العلمية)
علامہ سید ابن عابدین شامی علیہ الرحمۃ لکھتے ہیں :”و في صورتين لا يجوزالأولى أداء الدين عن العين كجعله ما في ذمة مديونه زكاة لماله الحاضر۔۔ الثانية أداء دين عن دين سيقبض“ ترجمہ: اور دو صورتوں میں یہ جائز نہیں، پہلی: دین کو عین کی طرف سے ادا کرنا جیسے مقروض کے ذمہ میں لازم مال کو اپنے موجودہ مال کی زکاۃ میں ادا کرنا اور دوسری: ایک دین کو دوسرے ایسے دین کے بدلے ادا کرنا جس پر عنقریب قبضہ ہوجائے گا۔(رد المحتار علی الدر المختار، کتاب الزکاۃ، ج 02، ص 271، دار الفكر- بيروت)
اس کی اصل وجہ یہی ہے کہ دین کی معافی اسقاط ہے جبکہ زکاۃ میں مطلوب تملیک ِفقیر ہوتی ہے، چنانچہ امام بدر الدین عینی علیہ الرحمۃ بنایہ شرح ہدایہ میں اور امام شہاب الدین شلبی علیہ الرحمۃ اپنے حاشیۃ علی التبیین میں غایۃ السروجی شرح ہدایہ کے حوالے سے لکھتے ہیں، و اللفظ للشلبی: ”(قوله: و كذا لا يجوز أداء الدين عن العين) أي؛ لأنه إسقاط والواجب فيها التمليك“ ترجمہ: شارح علیہ الرحمۃ کا قول : اور اسی طرح دین کو عین کی طرف سے ادا کرنا جائز نہیں، یعنی اس لئے جائز نہیں کہ یہ تو اسقاط ہے جبکہ زکاۃ میں فقیر کو مالک بنانا واجب ہے۔(البنایۃ شرح الھدایۃ، ج03، ص 313، دار الكتب العلمية - بيروت، لبنان) (حاشیۃ الشلبی علی الزیلعی، کتاب الزکاۃ، شرط صحۃ اداء الزکاۃ، ج 01، ص 258، المطبعة الكبرى الأميرية - بولاق، قاهرة)
اس کے جوا زکا طریقہ بیان کرتے ہوئے ملک العلماء امام کاسانی علیہ الرحمۃ بدائع الصنائع میں لکھتے ہیں: ”و الحيلة في الجواز أن يتصدق عليه بخمسة دراهم عين ينوي عن زكاة المائتين ثم يأخذها منه قضاء عن دينه فيجوز و يحل له ذلك“ ترجمہ: اور اس کے جائز ہونے کیلئے مشروع حیلہ یہ ہےکہ یہ اپنے موجودہ مال میں سے پانچ درہم اس فقیر پر صدقہ کرے اور اس میں دو سو درہم کی زکاۃ کی نیت کرلے پھر اس فقیر سے اپنے قرض کو وصول کرتے ہوئے وہ پانچ درہم لے لے تو یہ جائز ہے اور اس کیلئے یہ حلال ہوں گے۔(بدائع الصنائع، کتاب الزکاۃ، فصل: الذی یرجع الی المؤدی، ج 02، ص 43، دار الكتب العلمية)
چونکہ اس طریقے میں زکاۃ کی ادائیگی کے ساتھ مدیون کے ذمہ کی قرض سے براءت ہے، اس لئے یہ افضل ہے، چنانچہ در مختار میں ہے :”و حيلة الجواز أن يعطي مديونه الفقير زكاته ثم يأخذها عن دينه“ ترجمہ: اور جواز کا حیلہ یہ ہے کہ پہلے اپنے مدیون فقیر کو اپنی زکاۃ دے دے پھر اس سے وہ زکاۃ اپنے قرض کے بدلے وصول کرلے۔
اس پر علامہ شامی علیہ الرحمۃ لکھتے ہیں :”قال في الأشباه و هو أفضل من غيره أي لأنه يصير وسيلة إلى براءة ذمة المديون“ ترجمہ: اشباہ میں فرمایا کہ یہ طریقہ اس کے غیر سے افضل ہے یعنی اس وجہ سے کہ یہ مدیون کے ذمہ کو قرض سے بری کرنے کا ذریعہ ہے۔ (رد المحتار علی الدر المختار، کتاب الزکاۃ، ج 02، ص 271، دار الفكر - بيروت)
مالِ تجارت کے بدلے کوئی سامان گھریلو استعمال کیلئے خریدا تو اس سامان پر زکاۃ نہیں، چنانچہ علامہ کاسانی علیہ الرحمۃ لکھتے ہیں: ”لو اشترى عينا من الأعيان و نوى أن تكون للبذلة و المهنة دون التجارة لا تكون للتجارة سواء كان الثمن من مال التجارة أو من غير مال التجارة؛ لأن الشراء بمال التجارة إن كان دلالة التجارة فقد وجد صريح نية الابتذال ولا تعتبر الدلالة مع الصريح بخلافها“ ترجمہ: اگر کسی نے کوئی چیز خریدی اور نیت اس کو خرچ کرنے واستعمال کرنے کی ہے، تجارت کی نہیں، تو وہ چیز تجارت کے لئے نہ ہوگی، خواہ ثمن مالِ تجارت سے دیا ہو یا مالِ تجارت کے علاوہ سے دیا ہو، کیونکہ مالِ تجارت کے بدلے خریدنا اگر چہ دلالۃً تجارت ہی کے لئے ہے، تو استعمال کرنے کی نیت صراحتاً موجود ہے اور عدمِ تجارت کی صریح نیت کی موجودگی میں دلالت کا اعتبار نہیں۔(بدائع الصنائع، کتاب الزکاۃ، فصل: الشرائط التی ترجع الی المال، ج 02، ص 12، دار الكتب العلمية)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم