
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
سوال
میں قسطوں پر سامان دیتا ہوں، میں اپنے مال کا کس طرح حساب لگا کر زکوۃ ادا کروں؟ میری رہنمائی فرمائیے۔
جواب
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
اسلامی تاریخ کے اعتبارسے جس تاریخ میں جس وقت آپ نصاب کی بقدرمال زکوۃ کے مالک بنے اس وقت سے آپ کا زکوۃ کاسال شروع ہوگیا،اب اگلے سال جب وہی اسلامی تاریخ اوروہی وقت دوبارہ آئے گاتواس وقت میں آپ اپنے پاس موجودمال زکوۃ اورجولوگوں پر ادھار ہے،اس سب کوجمع کرلیں ،اورموجودمال زکوۃ کی قیمت وہ لگائیں جواس وقت اس کی مارکیٹ ویلیوہے،اورپھرآپ پرجولوگوں کاقرض ہے ، اس کو اس جمع شدہ میں سے مائنس کرلیں، تو جومال باقی بچے اگرتووہ اب نصاب سے کم ہے توزکوۃ لازم نہیں ۔اوراگروہ اب بھی نصاب کے برابر یا اس سے زائدہے تواس کی زکوۃ آپ پرلازم ہے ،اوراس کی ادائیگی کاطریقہ یہ ہے کہ جتنامال آپ کے پاس ہے اس کی زکوۃ تو سال پورا ہونے پر فورا ادا کرنا لازم ہے اورجولوگوں سے لیناہے ،اس کی زکوۃ چاہیں توسال پوراہونے پرہی اداکردیں کہ بار بار کے حساب سے نجات ملے، اور چاہیں تو جب کم از کم نصاب کاپانچواں حصہ وصول ہو، اس وقت اتنے حصے کی جو زکوۃ بنے وہ اداکردیں، اور یونہی کرتے رہیں، یہاں تک کہ سارے ادھار کی زکوۃ ادا ہوجائے۔ فتاوی عالمگیری میں ہے
تعتبر القیمۃ عند حولان الحول
ترجمہ: سال گزرنے پر جو قیمت ہو گی، اس کا اعتبار ہو گا۔(فتاوی عالمگیری، جلد 1، صفحہ 179، دار الفکر، بیروت)
رد المحتار علی الدر المختار میں ہے
اعلم ان الدیون عند الامام ثلاثۃ : قوی، و متوسط، و ضعیف فتجب زکاتھا اذا تم نصابا و حال الحول لکن لا فورا بل عند قبض اربعین درھما من الدین القوی کقرض وبدل مال تجارۃ فکلما قبض اربعین درھما یلزمہ درھم
ترجمہ:تو جان لےکہ امام اعظم علیہ الرحمۃ کے نزدیک دین کی تین قسمیں ہیں : قوی، متوسط اور ضعیف۔ اور اس کی زکوۃ تب واجب ہو گی جب نصاب اور سال مکمل ہو ،لیکن فوری ادا کرنا واجب نہیں بلکہ جب دین قوی جیسے قرض یا مال تجارت کے بدل میں سے چالیس درہم پر قبضہ ہوجائے ،پس جب بھی چالیس درہم پرقبضہ کرے گاتو اس پر ایک درہم زکوۃ دینا لازم ہو جائے گا۔ (رد المحتار علی در المختار، جلد 2، صفحہ305، دار الفکر، بیروت)
فتاوی رضویہ میں سوال ہوا کہ ” ایک شخص نے ایک ہزار روپے کسی روزکار میں لگائے، بعد سال ختم ہو نے کے اُس کے پاس مال دو سو ۲۰۰ روپیہ کا رہا اور قرض میں پانچ سو روپیہ رہااور نقد چار سو روپیہ مع منافع ایک سو رہا، آیا کُل گیارہ سو روپیہ کی زکوٰۃ نکا لی جائے یا کس قدر کی؟“
تو اعلی حضرت نے جواباً ارشاد فرمایا:” سالِ تمام پرکُل گیارہ سو کی زکوٰۃ واجب ہے مگر چار سو نقداور دو سو کا مال ، ان کی زکوٰۃ فی الحال واجب الادا ہے اور پانچسو کہ قرض میں پھیلا ہُوا ہے جب اس میں سے بقدر گیارہ روپےتین آنے ۲-۲/۵ پائی کے وصول ہوتا جائے اُس کا چالیسواں حصّہ ادا کرتا رہے اور اگر فی الحال سب کی زکوٰۃ دے دے تو آئندہ کے با ربار محاسبہ سے نجات ہے۔“ (فتاوی رضویہ، جلد 10، صفحہ 133، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: ابو شاہد مولانا محمد ماجد علی مدنی
فتوی نمبر: WAT-4177
تاریخ اجراء: 14صفرالمظفر1447ھ/09اگست2025ء