
مجیب:ابو حفص مولانا محمد عرفان عطاری مدنی
فتوی نمبر:WAT-3616
تاریخ اجراء:30شعبان المعظم 1446ھ/01مارچ2025ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا اسکول میں زکوۃ دے سکتے ہیں جب گورنمنٹ مدد نہ کرے اور عمارت کی حالت بہت خراب ہو؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
زکوۃ کی ادائیگی کے لئے زکوۃ کی رقم کا مستحق زکوٰۃ(فقیریامسکین وغیرہ) کو مالک بنانا ضروری ہے،جبکہ اسکول کی تعمیرمیں دینے سے مستحق زکوۃ کومالک بنانانہیں پایاجاتالہذا اسکول میں زکوۃ دینا جائز نہیں اور نہ ہی اسکول میں زکوۃ دینے سے زکوۃ ادا ہوگی۔اسکول کی تعمیر میں زکوۃ و صدقہ واجبہ کی رقم کے علاوہ دوسری رقم خرچ کی جائے۔
اللہ عزوجل قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے:(اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآءِ وَ الْمَسٰكِیْنِ)ترجمہ کنز الایمان: زکوٰۃ تو انہیں لوگوں کے لیے ہے محتاج اور نرے نادار۔(القرآن،پارہ10،سورۃ التوبۃ،آیت 60)
زکوۃ کی وضاحت کرتے ہوئے تنویرالابصار میں فرمایا: "ھی تملیک جزء مال عینہ الشارع من مسلم فقیر غیر ھاشمی ولا مولاہ مع قطع المنفعۃ عن الملک من کل وجہ للہ تعالیٰ‘‘ ترجمہ:زکوۃ کامطلب ہے اللہ عزوجل کی رضا کے لئے شارع کی طرف سے مقرر کردہ مال کے ایک جزء کا مسلمان فقیر کو مالک کردینا اور اپنا نفع اس سے بالکل جدا کرلیا جائے ، جبکہ وہ فقیر نہ ہاشمی ہو اور نہ ہی ہاشمی کا آزاد کردہ غلام ۔(تنویر الابصار مع در مختار و رد المحتار، جلد 3، صفحہ 203 تا 206 ملتقطا، مطبوعہ کوئٹہ)
سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن فتاویٰ رضویہ میں فرماتے ہیں: ”زکوٰۃ کا رکن تملیکِ فقیر (یعنی فقیر کو مالک بنانا) ہے۔ جس کام میں فقیر کی تملیک نہ ہو، کیسا ہی کارِ حَسن ہو جیسے تعمیرِ مسجد یا تکفینِ میت یا تنخواہِ مدرسانِ علمِ دین، اس سے زکوٰۃ نہیں ادا ہوسکتی۔“(فتاویٰ رضویہ، جلد 10، صفحہ 269، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
مفتی جلال الدین امجدی رحمۃ اللہ علیہ فتاوی فقیہ ملت میں ایک سوال کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں:"زکوۃ و فطرہ اور دیگر صدقات واجبہ کے اصل مستحقین فقراء و مساکین ہیں جن کا ذکر قرآن پاک کی اس آیت میں ہے( اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآءِ وَ الْمَسٰكِیْنِ )۔۔۔لہذا اسکول مذکور میں زکوۃ و صدقہ واجبہ کی رقم صرف کرنا ہرگز جائز نہیں، لوگوں کو چاہئے کہ ڈھائی فیصد جو غربا ء و مساکین کا حق ہے اسے ان لوگوں تک پہنچنے دیں اور ساڑھے ستانوے فیصدجو زکوۃ دینے والوں کے پاس بچتا ہے اس طرح کے کام اسی سے کریں۔"(فتاوی فقیہ ملت،جلد1،صفحہ310،شبیر برادرز، لاہور)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم