
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ زمین کی پیداوار پر جو زکوٰۃ واجب ہوتی ہے جسے عشر کہتے ہیں، سوال یہ ہے کہ اس عشر اور نصف عشر سے کیا مراد ہے؟ مثلاً اگر کسی کے کھیت میں پچاس کلو یا دو سو کلو دھان یا گیہوں کی فصل ہوئی ہے تو کتنا کلو عشر یا نصف عشر نکالیں گے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
عشر کا مطلب مکمل پیداوار کا دسواں حصہ (دس فیصد) ہوتا ہے، اور نصف عشر کا مطلب پوری پیداوار کا بیسواں حصہ (پانچ فیصد) ہوتا ہے۔ جیسے اگر کسی کھیت میں پچاس (50) کلو دھان، یا گیہوں کی فصل بوئی ہو، تو اس کا عشر یعنی دسواں حصہ، پانچ کلو ہوگا، اور نصف عشر یعنی بیسواں حصہ ڈھائی کلو ہو گا۔ اسی طرح اگر دوسو (200) کلو دھان یا گیہوں کی فصل بوئی ہو، تو ٹوٹل پیداوار کا عشر بیس کلو، اور نصف عشر دس کلو ہوگا۔
بدائع الصنائع میں ہے:
فما سقي بماء السماء، أو سقي سيحا ففيه عشر كامل، و ما سقي بغرب، أو دالية، أو سانية ففيه نصف العشر، و الأصل فيه ما روي عن رسول اللہ صلى اللہ عليه و سلم أنه قال «ما سقته السماء ففيه العشر و ما سقي بغرب، أو دالية، أو سانية ففيه نصف العشر»
ترجمہ: جو زمین آسمان یا نہر کے پانی سے سیراب کی جائے تو ا س میں مکمل عشر واجب ہے، اور جو کھیتی ڈول یا چرسے سے سیراب کیا جائے، اس میں آدھا عشر (یعنی بیسواں حصہ) واجب ہوتا ہے۔ اس کی اصل رسول اللہ ﷺ کی وہ حدیث ہے جس میں فرمایا:جس کھیتی کو آسمان (بارش) سیراب کرے اس میں عشر ہے، اور جس کو ڈول سے سیراب کیا جائے اس میں آدھا عشر ہے۔ (بدائع الصنائع، جلد 2، صفحہ 62،دار الکتب العلمیہ، بیروت)
بہارشریعت میں ہے: ”جس چیزمیں عشریانصف عشرواجب ہوا، اس میں کُل پیداوار کا عشر یا نصف عشر لیا جائے گا۔“ (بہار شریعت، جلد 1، حصہ 5، صفحہ 918، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری
فتویٰ نمبر: FAM-833
تاریخ اجراء: 28 محرم الحرام 1447ھ / 24 جولائی 2025ء