
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ کیا زکوۃ اور عشر کے پیسے مدرسے کی تعمیر میں دے سکتے ہیں؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
زکوۃ اور عشر کی رقم بغیر حیلۂ شرعی کے ڈائریکٹ (Direct) مدرسے کی تعمیر میں دینا جائز نہیں، اگر دی تو ان کی ادائیگی نہ ہوگی؛ کیونکہ صدقات واجبہ مثلاً زکوۃ و عشر وغیرہ کی ادائیگی کے لیے تملیک شرط ہے یعنی کسی مستحق زکوۃ کو ان کا مالک بنا دیا جانا، جبکہ مدرسے کی تعمیر میں پیسے صرف کرنے میں یہ شرط نہیں پائی جاتی۔
ملک العلماء شیخ ابوبکر بن مسعود کاسانی رحمۃ اللہ تعالی علیہ (المتوفى: 587ھ / 1191ء) لکھتے ہیں:
و قد أمر اللہ تعالى الملاك بإيتاء الزكاة لقوله عز و جل:"وَ اٰتُوا الزَّكٰوةَ" [البقرة: 43]
و الإيتاء هو التمليك؛ و لذا سمى اللہ تعالى الزكاة صدقة بقوله عز و جل"إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ" [التوبة: 60]
و التصدق تمليك فيصير المالك مخرجا قدر الزكاة إلى اللہ تعالى بمقتضى التمليك سابقا عليه
ترجمہ: بے شک اللہ تعالیٰ نے مالداروں کو زکوۃ ادا کرنے کا حکم دیا کہ ارشاد باری تعالی ہے:
وَ اٰتُوا الزَّكٰوةَ
اور إیتاء (دینا، ادا کرنا) تملیک (یعنی کسی کو اس کا مالک بنا دینے) ہی کو کہتے ہے؛ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے زکوۃ کو صدقے کا نام دیا، ارشاد ربانی ہے:
إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ
اور صدقہ کرنا تملیک ہی ہوتا ہے۔ پس مال کا مالک زکوۃ کی مقدار مال اللہ تعالیٰ کی راہ میں نکالنے والا ہوتا ہے ، تملیک کے اُس مقتضی کے سبب جو اس (ادائیگی) سے پہلے واقع ہو چکا ہوتا ہے۔ (بدائع الصنائع، کتاب الزکاۃ، فصل ركن الزكاة، جلد 2، صفحہ 454، دار الكتب العلمية بیروت)
علامہ فخر الدین عثمان بن علی زیلعی رحمۃ اللہ تعالی علیہ (المتوفى: 743ھ/ 1342ء) لکھتے ہیں:
لا يجوز أن يبنى بالزكاة المسجد لأن التمليك شرط فيها ولم يوجد وكذا... كل ما لا تمليك فيه
ترجمہ: زکوۃ سے مسجد کی تعمیر جائز نہیں؛ کیونکہ زکوۃ کی ادائیگی میں تملیک (کسی کو مال زکوۃ کا مالک بنانا) شرط ہے اور یہاں یہ موجود نہیں، اور اسی طرح وہ تمام امور جن میں تملیک نہیں پائی جاتی(ان پر زکوۃ لگانا بھی جائز نہیں)۔ (تبیین الحقائق شرح کنز الدقائق، کتاب الزكاة، باب المصرف، جلد 2، صفحہ 120، دار الكتب العلمية بيروت)
امام اہل سنت اعلی حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالی علیہ (سال وفات: 1340ھ/ 1921ء) لکھتے ہیں: ”(زکوٰۃ) دینے میں تملیک شرط ہے، جہاں یہ نہیں جیسے محتاجو ں کو بطور اباحت اپنے دستر خوان پر بٹھا کر کھلا دینا یا میت کے کفن دفن میں لگانا یا مسجد، کنواں، خانقاہ، مدرسہ، پل، سرائے وغیرہ بنوانا ان سے زکوٰۃ ادا نہ ہوگی۔“ (فتاوی رضویہ، جلد 10، صفحہ 110، رضا فاؤنڈیشن لاهور)
فقیہِ ملت علامہ مفتی جلال الدین احمد امجدی رحمۃ اللہ تعالی علیہ (سال وفات: 1423ھ / 2001ء) لکھتے ہیں: ”عشر صدقات واجبہ میں سے ہے اور صدقہ واجبہ کی ادائیگی کے لئے تملیک شرط ہے، بغیر حیلۂ شرعی مدارس، مساجد اور عید گاہ میں صرف کرنا جائز نہیں۔... زکوۃ، صدقہ فطر اور عشر کی ادائیگی کے لئے تملیک یعنی مسکین وغیرہ کو مالک بنا دینا شرط ہے بغیر تملیک یہ ادا نہیں ہو سکتے لہذا مدرسہ تعمیر کرنے، مدرسین کی تنخواہ دینے یا کتاب وغیرہ خرید کر مدرسہ پر وقف کر دینے کے لیے مدرسہ کے مینجر کو زکوۃ، صدقۂ فطر اور عشر دینا جائز نہیں۔“ (فتاوی فیض الرسول، جلد 1، صفحہ 449 و 455، اکبر بک سیلرز لاہور)
صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ تعالی علیہ (سال وفات: 1367ھ / 1948ء) لکھتے ہیں: ”زکاۃ کا روپیہ مردہ کی تجہیز و تکفین (کفن دفن) یا مسجد کی تعمیر میں نہیں صرف کر سکتے کہ تملیک فقیر نہیں پائی گئی اور ان امور میں صرف کرنا چاہیں تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ فقیر کو مالک کر دیں اور وہ صرف کرے اور ثواب دونوں کو ہوگا بلکہ حدیث میں آیا: اگر سو ہاتھوں میں صدقہ گزرا تو سب کو ویسا ہی ثواب ملے گا جیسا دینے والے کے لیے اور اس کے اجر میں کچھ کمی نہ ہوگی۔“ (بہار شریعت، جلد 1، حصہ 5،صفحه 890، مکتبۃ المدینہ کراچی)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری
فتویٰ نمبر: FAM-718
تاریخ اجراء: 24 شوال المکرم 1446ھ / 23 اپریل 2025ء