زکوٰۃ بھیجنے کے پیسے زکوٰۃ کی رقم سے کاٹنا

زکوٰۃ بھیجنے کے چارجز زکوٰۃ کی رقم سے کاٹے جا سکتے ہیں یا الگ سے دینے ہوں گے ؟

دارالافتاء اھلسنت)دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہم لوگ یوکے سے پاکستان کشمیر میں اپنی ممانی کو زکوۃ بھیجنا چاہتے ہیں۔ ہم جس مَنی ٹرانسسفر کمپنی (Money Transfer Company)کے ذریعے رقم بھیجیں گے، وہ اُس بھیجی جانے والی رقم پر چارجز یعنی فیس وصول کرتے ہیں۔ کیا ہم زکوٰۃ بھیجنے کے لیے جو چارجز ادا کریں گے، اُسے زکوٰۃ کی رقم سے ہی ادا کر سکتے ہیں، یعنی فیس بھی زکوٰۃ سے ادا کر دیں اور بقیہ رقم بطورِ زکوٰۃ پاکستان ٹرانسفر کر دیں؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

اگر زکوٰۃ کی رقم کسی دوسرے ملک یا شہر بھیجی جائے اور رقم بھیجنے پر اخراجات آئیں، تو وہ اخراجات زکوٰۃ کی رقم سے ادا نہیں کیے جا سکتے، بلکہ اُن اخراجات کو الگ رقم سے ادا کیا جائے گا۔ جتنی زکوٰۃ بنتی ہے، وہ مکمل رقم ہی مستحق تک پہنچنا ضروری ہے، لہذا پوچھی گئی صورت میں کشمیر زکوٰۃ بھیجتے ہوئے مَنی ٹرانسسفر کمپنی (Money Transfer Company) کےچارجز کو الگ ادا کیا جائے اور جو زکوٰۃ کی رقم بنتی ہے، وہ مکمل رقم ہی مستحق تک پہنچائی جائے۔

فتاوی رضویہ میں سوال کیا گیا کہ میرے بچوں کا ماموں کسی دوسرے شہر میں مقیم اور فقیر شرعی ہے۔ اگر میں اُسے ڈاک کے ذریعے زکوٰۃ کے پانچ روپے بھیجوں تو ایک آنہ یا دو آنے بطورِ فیس کٹوتی ہو گی تو کیا یہ فیس زکوٰۃ سے شمار ہو گی یا جداگانہ اپنی جیب سے دی جائے گی؟ امامِ اہلِ سنَّت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (وِصال: 1340ھ/1921ء) نے جواب دیا: جتنا روپیہ زکوٰۃ گِیرِنْدَہ(وصول کرنے والے) کو ملے گا،  اتنا زکوٰۃ میں محسوب ہوگا، بھیجنے کی اُجرت وغیرہ اس پر جو خرچ ہو شامل نہ کی جائے گی۔ (فتاوٰی رضویہ، جلد10، صفحہ203، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

صدرالشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (وِصال: 1367ھ/1947ء) لکھتے ہیں: روپے کے عوض کھانا غلّہ کپڑا وغیرہ فقیر کو دے کر مالک کر دیا تو زکاۃ ادا ہو جائے گی، مگر اس چیز کی قیمت جو بازار بھاؤ سے ہوگی،  وہ زکاۃ میں سمجھی جائے، بالائی مصارف مثلاً بازار سے لانے میں جو مزدور کو دیا ہے یا گاؤں سے منگوایا تو کرایہ اور چونگی وضع نہ کریں گے یا پکوا کر دیا تو پکوائی یا لکڑیوں کی قیمت مُجرا (الگ) نہ کریں ، بلکہ اس پکی ہوئی چیز کی جو قیمت بازار میں ہو، اس کا اعتبار ہے۔ (بھار شریعت، جلد1، حصہ5، صفحہ909، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

مجیب : مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: FSD-9405

تاریخ اجراء18   محرم الحرام1447ھ/ 14  جولائی 2025ء