
مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر:FAM-648
تاریخ اجراء:26 رجب المرجب1446ھ/27 جنوری 2025ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ کیا زکوۃ کی رقم سے کسی کو عمرہ کروا سکتے ہیں یا نہیں؟ کیا اس طرح زکوۃ ادا ہوجائے گی؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
زکوٰۃ کی ادائیگی کے لیے مستحق زکوٰۃ شخص کو زکوۃ کا مالک بنانا ضرور ی ہوتا ہے، اس کے بغیر زکوٰۃ ادا نہیں ہوتی۔ اب جس شخص کو عمرے پر بھیجنا ہے، اگرتو وہ ایسا ہے کہ جو زکوۃ کا اصلاً مستحق ہی نہیں، تو ظاہر ہے کہ اُسے تو زکوۃ کی رقم ہی نہیں دی جاسکتی، اور اگر وہ شخص ایسا ہے جو زکوۃ کا مستحق ہے یعنی شرعی فقیر ہے اور سید یا ہاشمی بھی نہیں ہے، تواُسے بھی زکوۃ کی رقم ملکیت اور قبضے میں دئیے بغیر عمرے پر نہیں بھیج سکتے، اور اس طرح زکوۃ بھی ادا نہیں ہوگی، ہاں اگر اُسے زکوۃ کی رقم کا مالک بنا کر وہ رقم اُس کے قبضہ میں دیدی جائے اور پھر وہ چاہے تو اُس پیسوں سے عمرہ کرے یا چاہے تو کسی بھی کام میں خرچ کرے تو یہ طریقہ شرعاً درست ہے، البتہ کسی شرعی فقیر کو بلا ضرورت اتنی زکوٰۃ دے دینا کہ وہ خود نصاب کا مالک ہوجائے یہ مکروہ تنزیہی یعنی ناپسندیدہ ہے، لیکن اگر وہ مقروض ہو کہ قرض نکال کر کچھ نہ بچے یا نصاب سے کم بچے یا اُس شخص کے بال بچے ہی اتنے ہوں کہ سب کو کچھ نہ کچھ دینے کی صورت میں سب کو نصاب سے کم ملے تو اب یہ مکروہ بھی نہیں۔
زکوٰۃ، تو وہ شرعاً مال کے ایک معین حصے کا شرعی فقیر کو مالک بنانا ہے، چنانچہ تنویرالابصار میں ہے: ’’ھی تملیک جزء مال عینہ الشارع من مسلم فقیر غیر ھاشمی ولا مولاہ مع قطع المنفعۃ عن الملک من کل وجہ للہ تعالیٰ‘‘ ترجمہ: اللہ عزوجل کی رضا کے لئے شارع کی طرف سے مقرر کردہ مال کے ایک جزء کا مسلمان فقیر کو مالک کردینا، جبکہ وہ فقیر نہ ہاشمی ہو اور نہ ہی ہاشمی کا آزاد کردہ غلام، اور اپنا نفع اس سے بالکل جدا کرلیا جائے۔(تنویر الابصار، جلد 3، صفحہ 203 - 206، دار المعرفۃ، بیروت)
سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن فتاویٰ رضویہ میں فرماتے ہیں: ”زکوٰۃ کا رکن تملیکِ فقیر (یعنی فقیر کو مالک بنانا) ہے۔ جس کام میں فقیر کی تملیک نہ ہو، کیسا ہی کارِ حَسن ہو جیسے تعمیرِ مسجد یا تکفینِ میت یا تنخواہِ مدرسانِ علمِ دین، اس سے زکوٰۃ نہیں ادا ہوسکتی۔“(فتاویٰ رضویہ، جلد 10، صفحہ 269، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
فتاوٰی اہلسنت احکام زکوۃمیں ہے :”زکوٰۃ کے پیسے سے کسی کو عمرہ نہیں کرواسکتے، فقیر شرعی کو مالک بنا کردینا ضروری ہے۔ پھر وہ جو چاہے کرے۔‘‘(فتاوٰی اھلسنت احکام زکوٰۃ، صفحہ 414، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
بہار شریعت میں ہے :”ایک شخص کو بقدرِ نصاب(زکوۃ کی رقم) دے دینا مکروہ، مگر دے دیا تو ادا ہوگئی۔ ایک شخص کو بقدرِ نصاب دینا مکروہ اُس وقت ہے کہ وہ فقیر مدیُون نہ ہو اور مدیُون ہو تو اتنا دے دینا کہ دَین نکال کر کچھ نہ بچے یا نصاب سے کم بچے مکروہ نہیں۔ یوہیں اگر وہ فقیر بال بچوں والا ہے کہ اگرچہ نصاب یا زیادہ ہے، مگر اہل و عیال پر تقسیم کریں تو سب کو نصاب سے کم ملتا ہے تو اس صورت میں بھی حرج نہیں۔“(بھار شریعت، جلد 1، حصہ 5، صفحہ 927، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم