
مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر:FAM-570
تاریخ اجراء:21 ربیع الاخر1446ھ/25اکتوبر 2024ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ کیا زکوۃ کی رقم، مدرسے کی تعمیر، بجلی کے بل، قرآن پاک، کتابیں، مدرسین کی تنخواہ اور بچوں کے کھانے پینے کے اخراجات میں صرف ہوسکتی ہے یا نہیں؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
زکوۃ کی ادائیگی کے لیے کسی شرعی فقیر کو مالک بنانا شرط ہوتا ہے ،چونکہ مدرسے کی تعمیر اور دیگر اخراجات پر زکوٰۃ کی رقم صَرف کرنے میں فقیرِ شرعی کو مالک بنانانہیں پایا جاتا،لہٰذا زکوۃ کی رقم براہ راست مدرسے کی تعمیر و اخراجات میں خرچ نہیں کر سکتے، اگر ایسا کیا تو زکوۃ ادا نہیں ہوگی، ہاں اگر ان کاموں میں خرچ کرنے کی ضرورت ہو تواس کا درست طریقہ یہ ہے کہ پہلے کسی عاقل بالغ مستحق زکوۃ شخص کے قبضے میں زکوۃ کی رقم دے کر اُسےمالک بنا دیا جائے اور پھر وہ اپنی طرف سے مدرسے کی تعمیر و اخراجات میں خرچ کردے یا کسی دوسرے کو مدرسے کی تعمیر و اخراجات میں خرچ کرنے کا وکیل کردے، تویوں زکوۃ بھی ادا ہوجائے گی اور وہ رقم بھی مدرسے کی تعمیر اور تمام مصارف و اخراجات میں خرچ ہوسکے گی۔
شرعی فقیر کو زکوۃ کی رقم کا مالک بنائے بغیر، مدرسہ کی تعمیر و اخراجات وغیرہ پر زکوۃ کی رقم صرف نہیں کی جاسکتی، جیسا کہ ملتقی الابحر اور اس کی شرح مجمع الانہر میں ہے: ’’لا تدفع الزکاۃ لبناء مسجد لان التملیک شرط فیھا، ولم یوجد، وکذا کل ما لا تملیک فیہ‘‘ ترجمہ: زکوۃ مسجد کی تعمیر میں صرف نہ کی جائے کیونکہ زکوۃ کی ادائیگی کے لیے مالک بنانا شرط ہے اوروہ (مسجد کی تعمیر کے لیےزکوۃ کی رقم دینے میں)نہیں پایا جارہا،اسی طرح ہر اس چیز میں زکوۃ نہ لگائی جائے جہاں مالک بنانا نہ پایا جائے۔(ملتقی الابحرمع مجمع الانھر،جلد1،صفحہ328،دارا لکتب العلمیہ بیروت)
سیدی اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ فتاوی رضویہ میں ارشاد فرماتے ہیں:’’ زکوٰۃ کا رکن تملیکِ فقیر ہے، جس کام میں فقیر کی تملیک نہ ہوکیسا ہی کارحسن ہو، جیسے تعمیر مسجد یا تکفینِ میّت یا تنخواہِ مدرسانِ علمِ دین، اس سے زکوٰۃ نہیں ادا ہوسکتی۔ مدرسہ علمِ دین میں دینا چاہیں تو (اس کا حیلہ یہ ہےکہ) زکوٰۃ دینے والا کسی فقیر مصرفِ زکوٰۃ کو بہ نیتِ زکوٰۃ دے اور وُہ فقیر اپنی طرف سے کُل یا بعض مدرسہ کی نذر کردے۔‘‘(فتاویٰ رضویہ، جلد10،صفحہ269، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
امامِ اہلِ سنّت سیدی اعلی حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن ارشاد فرماتے ہیں: ”مدرسہ اسلامیہ اگر صحیح اسلامیہ خاص اہلسنت کا ہو۔۔۔ تو اس میں مالِ زکوٰۃ اس شرط پر دیا جاسکتا ہے کہ مہتمم اس مال کو جُدا رکھے اور خاص تملیکِ فقیر کے مصارف میں صرف کرے، مدرسین یا دیگر ملازمین کی تنخواہ اس سے نہیں دی جاسکتی،نہ مدرسہ کی تعمیر یا مرمت یا فرش وغیرہ میں صرف ہوسکتی ہے، نہ یہ ہوسکتا ہے کہ جن طلبہ کو مدرسہ سے کھانا دیاجاتاہے، اُس روپے سے کھانا پکا کر اُن کو کھلایا جائے کہ یہ صورتِ اباحت ہے اور زکوٰۃ میں تملیک لازم……ہاں اگر روپیہ بہ نیّتِ زکوٰۃکسی مصرفِ زکوٰۃ کو دے کر مالک کردیں وُہ اپنی طرف سے مدرسہ کو دے دے ،تو تنخواہ ِمدرسین و ملازمین وغیرہ جملہ مصارفِ مدرسہ میں صرف ہوسکتاہے۔“(فتاویٰ رضویہ، جلد10، صفحہ254، 255، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
مفتی جلال الدین احمد امجدی رحمۃ اللہ علیہ سے فتاوی فیض الرسول میں سوال ہوا کہ زکوۃ کی رقم مدرسین کی تنخواہ، مدرسے کے ٹاٹ و چٹائی اور غریب بچوں کی کتاب و کاپی پر خرچ کی جاسکتی ہے؟
آپ رحمۃ اللہ علیہ نے جواب ارشاد فرمایا:’’زکوٰۃ کی رقم مدرسین کی تنخواہ، مدرسے کے ٹاٹ و چٹائی، یہاں تک کہ بعض صورتوں میں غریب بچوں کی کتاب و کاپی میں بھی خرچ نہیں کرسکتے، ہاں اگر زکوۃ کی رقم کسی ایسے شخص کو دیں جو مالک نصاب نہ ہو،پھر وہ شخص مدرسے میں دیدے،تو اب وہ رقم مدرسے کی ہر ضرورت پر خرچ ہوسکتی ہے۔‘‘(فتاوی فیض الرسول،جلد1،صفحہ489،شبیر برادرز،لاھور)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم