Zakat Sirf Ramzan Mein He Nikalna Zaroori Hai?

 

زکوٰۃ صرف رمضان میں ہی نکالنا ضروری ہے ؟

مجیب:مفتی ابو الحسن محمد ہاشم خان عطاری

فتوی نمبر: LHR-12783

تاریخ اجراء: 17 رجب المرجب 1446ھ/18 جنوری 2025ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائےدین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ اکثر دیکھا گیا ہے کہ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد رمضان المبارک میں اپنے اموال کی زکوۃ نکالتی ہے ۔پوچھنا یہ تھا کہ کیا زکوٰۃ رمضان المبارک میں ہی ادا کرنا ضروری ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   شریعت اسلامیہ کی رو سے ہر شخص جس اسلامی مہینے کی جس تاریخ  کو جس وقت صاحبِ نصاب ہوااور پھراس پر اسلامی سال گز ر گیا ، تواگلے سال جب وہی اسلامی مہینے کی وہی تاریخ  آئے گی ، تو اس پر فوراً زکوٰۃ کی ادائیگی لازم ہوگی ۔مثلاً :ایک شخص 15 شعبان  کو صبح دس بج کر پندرہ منٹ پرصاحبِ نصاب ہوا ،اب اگلے سال جب 15 شعبان کو صبح دس بج کر 15 منٹ ہوں گے ، تو اس پر فوراً  زکوۃ کی ادائیگی کرنا لازم ہوگی اور اگر یہ شخص اپنی زکوٰۃ اگلے سال  15 شعبان کی بجائے یکم رمضان کو دے گا ، تو گنہگار ہوگا کہ جب زکوٰۃ کا سال مکمل ہوجائے ، تو فورا ًزکوۃ دینا واجب اور اس میں تاخیر کرنا گناہ ہے۔لیکن اگر اسی سال وہ یکم رمضان کو پیشگی زکوۃ دیتا ہے تو یہ جائز ہے جبکہ سال کے اختتام پر صاحب نصابِ رہے  اوردرمیان  میں نصاب بالکل ختم نہ ہو۔

                                                                                                                البتہ یہ یاد رہے کہ اگر کسی شخص کا اسلامی سال شوال یا ذیقعدہ میں پورا ہو رہا ہے اور وہ رمضان المبارک میں زکوۃ ادا کرتا ہے ، تو یہ بلاشبہ جائز بلکہ  افضل ہے کہ رمضان المبارک میں نفل کا ثواب فرض کے برابر اور فرض کا ثواب ستر گنا بڑھا دیا جاتا ہے۔نیز عند الشرع بھی زکوٰۃ کی ادائیگی سال مکمل ہونے سے پہلے یا پورے سال میں تھوڑی تھوڑی کر کے دینا جائز ہے ، لیکن یہ واضح رہے کہ اسلامی ماہ کی جس تاریخ کو سال مکمل ہوتا ہے اس وقت تمام سال کی پیشگی ادا کی ہوئی زکوٰۃ کا حساب کرے اور جتنی پیشگی زکوۃ ادا کر چکاہے اگر  وہ فرض زکوٰۃ کے برابر ہی  بنتی ہے تو ٹھیک ہے اور اگر کم  ہو ، تو جتنی بقایا ہے اتنی ادا کردے اور اگر زائد ادا کردی تو اب اسے اگلے سال کی زکوٰۃ  میں شامل کرلے ، جبکہ سال کے اختتام پرصاحب نصاب رہے  اوردرمیان میں نصاب بالکل ختم نہ ہوا ہو۔

نوٹ:

   صاحب نصاب سے مرا د یہ ہے کہ اس شخص کے پاس حاجت اصلیہ سے زائد 52.5 تولے (612.36گرام ) چاندی یا اس کی مالیت  کے برابر مال ہو۔52.5 تولے چاندی کی مالیت 18جنوری 2025ء کو تقریباً 170000روپے بنتی ہے۔

   الاختیار لتعلیل المختار میں ہے:’’ولا تجب إلا على الحر المسلم العاقل  البالغ إذا ملك نصابا خاليا عن الدين فاضلا عن حوائجه الأصلية ملكا تاما في طرفي الحول‘‘ترجمہ: ہر آزاد، عاقل ، بالغ ، مسلمان شخص جب ایسے نصاب کا سال کے ابتدا اور انتہا میں کا مل طور پر مالک ہوجو قرض اور اس کی حاجت اصلیہ سے زائد ہو  تو ا س پر زکوۃ واجب ہے۔)الاختيار لتعليل المختار،کتاب الزکاۃ ،ج1،ص99، مطبعة الحلبي،قاهرہ)

   در مختار میں ہے:"شرط افتراض أدائها حولان الحول وهو في ملکه"ترجمہ: ادائیگی زکوۃ کے فرض ہونے کے لئے یہ شرط ہے کہ مال ملکیت میں ہوتے ہوئے سال گزرجائے۔(ردالمحتار علی الدرالمختار ، کتاب الزکاۃ، ج2، ص267،دار الفکر،بیروت)

   سال مکمل ہونے پر فی الفور  زکوۃ ادا کرنا لازم ہےچنانچہ فتاوی ہندیہ میں ہے:’’تجب علی الفور عند تمام الحول حتی یأثم بتاخیرہ من غیر عذر‘‘ترجمہ:سال پورا ہونے پر زکوٰۃ (کی ادائیگی)فی الفور واجب  ہوجاتی ہے حتٰی کہ بغیر عذر تاخیر سے گناہ ہوگا۔(الفتاویٰ الهنديہ ، كتاب الزكاة ،ج 1 ، 170، دار الفکر،بیروت)

   فتاویٰ رضویہ میں ہے:’’اگر سال گزر گیا اور زکوٰۃ واجب الادا ہوچکی ، تو اب تفریق و تدریج ممنوع ہوگی بلکہ فوراًتمام و کمال زر واجب الادا ادا کرے کہ مذہبِ صحیح و معتمدو مفتی پر ادائے زکوٰۃ کا وجوب فوری ہے جس میں تا خیر باعثِ گناہ۔‘‘(فتاوی رضويه ،ج10 ، ص 76 ،  رضا فاؤنڈیشن لاهور)

   سال مکمل ہونے سے پہلے زکوۃ دینے سے متعلق کنزالدقائق میں ہے:’’ولو عجل ذو نصاب لسنين أو لنصب صح‘‘ترجمہ: اگر صاحب نصاب شخص نے کئی سالوں کی یا کئی نصابوں کی زکوۃ پہلے ادا کر دی ، تو زکوۃ ادا ہو جائے گی۔

   علامہ ابن نجیم مصری رحمۃ اللہ علیہ مذکورہ عبارت کے جز’’ذو نصاب‘‘کے تحت فرماتے ہیں :’’قيد بقوله: ذو نصاب لأنه لو عجل قبل أن يملك تمامه ثم تم الحول على النصاب لا يجوز، وفيه شرطان آخران أن لا ينقطع النصاب في أثناء الحول، وأن يكون كاملا في آخره‘‘ترجمہ: مصنف علیہ الرحمۃ نے قید لگائی کہ وہ صاحبِ نصاب ہو، کیونکہ اگر  اس نے نصاب مکمل ہونے سے پہلے ہی زکوۃ ادا کر دی اور پھر اس نصاب پر سال گزرا تو یہ جائز نہیں (یعنی وہ پیشگی والی زکوۃ ادا نہ ہوئی)اورپھر اس میں دو شرطیں ہیں وہ یہ کہ دورانِ سال نصاب منقطع نہ ہو اور یہ کہ سال کے آخر تک نصاب مکمل ہو۔( البحرالرائق شرح کنز الدقائق، ج2، ص241 ، دار الکتاب الاسلامی)

   پیشگی زکوۃ دینے سے متعلق سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ ایک سوال کے جواب میں ارشاد فر ماتے ہیں :’’جب سال تمام ہو فوراً فوراً پُوراادا کرے، ہاں اوّلیّت چاہے تو سال تمام ہونے سے پہلے پیشگی ادا کرے، اس کے لیے بہتر ماہِ مبارک رمضان ہے جس میں نفل کا ثواب فرض کے برابر اور فرض کا ستّر فرضوں کے برابر ۔‘‘ (فتاویٰ رضویہ ، ج10، ص183، رضا فاؤنڈیشن ، لاھور )

   ایک دوسرے مقام پر ہے:’’جس دن تاریخ وقت پر آدمی صاحبِ نصاب ہُوا جب تک نصاب رہے وہی دن تاریخ وقت جب آئے گا اُسی منٹ حولانِ حول ہوگا اس بیچ میں جو اوررو پیہ ملے گااُسے بھی اسی سال میں شامل کرلیا جائے گا اور اسی حولان کو اُس کا حولان مانا جائے گا اگر چہ اسے ملے ہوئے ابھی ایک ہی منٹ ہُوا، حولانِ حول کے بعد ادائے زکوٰۃ میں اصلاًتا خیر جائز نہیں، جتنی دیر لگائے گا گنہگار ہوگا، ہاں پیشگی دینے میں اختیار ہے کہ بتدریج دیتا رہے سال تمام پر حساب کرے اس وقت جو واجب نکلے اگر پُورا دے چکا بہتر، اور کم ہوگیاہے تو باقی فوراً اب دے، اور زیادہ پہنچ گیا تو اُسے آئندہ سال میں مُجرا لے۔‘‘(فتاویٰ رضویہ ، ج10، ص202، رضا فاؤنڈیشن ، لاھور )

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم