
مجیب:مولانا محمد نور المصطفٰی عطاری مدنی
فتوی نمبر:WAT-3721
تاریخ اجراء:16 شوال المکرم 1446 ھ/15 اپریل 2025 ء
دار الافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا مدرسہ کی زمین خریدنے کے لئے زکوٰۃ کی رقم دی جا سکتی ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
شرعی طور پر زکات کی ادائیگی میں تملیک (مالک بنانا) شرط ہے جبکہ مدرسے میں تملیک نہیں پائی جاتی، لہذا مدرسے کی زمین خریدنے میں یہ رقم براہِ راست استعمال نہیں کی جا سکتی، تاہم! اگر زکات کی رقم کا کسی عاقل بالغ شرعی فقیر کو مالک کر دیا جائے، اور وہ قبضہ کرنے کے بعد اپنی طرف سے وہ رقم مدرسے کی زمین کی خریداری میں دے دے تو جائز ہے۔
فتاوی عالمگیری میں ہے
"أما تفسیرھا فھي تملیک المال من فقیر مسلم غیر ھاشمی"
یعنی زکات کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان غیر ہاشمی فقیر کو مال کا مالک بنا دیا جائے۔(الفتاوی الھندیہ، جلد 1، صفحہ 170، دار الفکر، بیروت)
جہاں شرعی ضرورت ہو وہاں فقہاء کرام نے زکات کی رقم کا حیلہ کرکے استعمال کرنے کی اجازت دی ہے۔ چنانچہ غمز العیون اور فتاوی عالمگیری میں ہے:
"و اللفظ للثانی" اذا اراد ان يكفن ميتا عن زكاة ماله لايجوز (و الحيلة فيه ان يتصدق بها على فقير من اهل الميت)، ثم هو يكفن به الميت فيكون له ثواب الصدقة و لاهل الميت ثواب التكفين، و كذلك في جميع ابواب البر التي لايقع بها التمليك كعمارة المساجد و بناء القناطر و الرباطات لايجوز صرف الزكاة الى هذه الوجوه (و الحيلة ان يتصدق بمقدار زكاته) على فقير، ثم يأمره بعد ذلك بالصرف الى هذه الوجوه فيكون للمتصدق ثواب الصدقة و لذلك الفقير ثواب بناء المسجد و القنطرة"
ترجمہ: اگر کوئی شخص مالِ زکوۃ سے میت کا کفن تیار کرنا چاہے، تو یہ جائز نہیں ہے، ہاں یہ حیلہ کرسکتا ہے کہ یہ شخص (مالِ زکوۃ) میت کے خاندان کے کسی فقیر پر صدقہ کردے اور پھر وہ میت کا کفن تیار کردے، تو اب مالک کے لئے صدقے کا اور اہلِ میت کے لئے تکفین کا ثواب ہوگا، اسی طرح کا حیلہ تمام ان امورِ خیر میں کیا جاسکتا ہے، جس میں تملیک نہیں پائی جاتی، مثلاً مساجد، پُل اور سرائے بنانا کہ ان کاموں میں زکوۃ کا مال خرچ کرنا جائز نہیں ہے اور یہاں یہی حیلہ ہوگا کہ مالک زکوۃ کی مقدار کے برابر مال کسی فقیر کو دے دے اور پھر اسے کہے کہ تو ان کاموں میں خرچ کردے، تو اب صدقہ کرنے والے کے لئے صدقہ کا اور مسجد و پُل بنانے کا ثواب فقیر کو ہوگا۔ (فتاوی عالمگیری، کتاب الحیل، الفصل الرابع، جلد 6، صفحہ 392، مطبوعہ کوئٹہ)
سیدی اعلی حضرت، امام اہل سنت شاہ احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن فتاوٰی رضویہ میں ارشاد فرماتے ہیں: "زکوٰۃ کا رکن تملیک فقیر ہے جس کام میں فقیر کی تملیک نہ ہو کوئی ہی کارحسن ہو جیسے تعمیر مسجد یا تکفینِ میّت یا تنخواہِ مدرسانِ علمِ دین، اس سے زکوٰۃ نہیں ادا ہوسکتی۔ مدرسہ علمِ دین میں دینا چاہیں تو اس کے تین حیلے ہیں۔۔۔ دوسرے یہ کہ زکوٰۃ دینے والا کسی فقیر مصرفِ زکوٰۃ کو بہ نیتِ زکوٰۃ دے اور وُہ فقیر اپنی طرف سے کل یا بعض مدرسہ کی نذر کردے۔" (ملتقطا از فتاوٰی رضویہ، جلد 10، صفحہ 269، 270 رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم َصلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم