
مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر:FAM-633
تاریخ اجراء:08 رجب المرجب1446ھ/09جنوری 2025ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ زکوۃ اور صدقہ فطر دونوں کے وجوب کے لیے مالک نصاب ہونا ضروری ہے تو زمیندار پر زمین کی وجہ سے اُن دونوں کا وجوب ہوگا یا نہیں؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
زکوۃ اور صدقہ فطر میں سے ہر ایک کے واجب ہونے کیلئے اگرچہ نصاب کا مالک ہونا ضروری ہے، مگر دونوں میں اس اعتبار سے فرق ہے کہ زکوۃ کے واجب ہونے کیلئے تو نصاب کا مالِ نامی (یعنی سونا، چاندی، کرنسی، مالِ تجارت وغیرہ) ہونا شرط ہے، جبکہ صدقہ فطر میں نصاب کا مال نامی ہونا شرط نہیں۔ لہذا زمیندار پر زمین کی وجہ سے زکوۃ و صدقہ فطر کے واجب ہونے یا نہ ہونے میں کچھ تفصیل ہے جو کہ مندرجہ ذیل ہے:
(۱) اگر زمیندار نے وہ زمین بیچنے کی نیت سے خریدی ہواور قرض و حاجت اصلیہ کو مائنس کرنے کے بعد اُس زمین کی خود یا دوسرے مال نامی(جیسے سونا، چاندی، روپے، پرائز بانڈ، یا دوسرے مال تجارت ) سے مل کر نصاب(ساڑھے باون تولہ چاندی) کے برابر مالیت ہو، تو اس صورت میں سال پورا ہونے پر اس زمین کی موجودہ مالیت (Current Value) پر زکوۃلازم ہوگی، کیونکہ بیچنے کی نیت سے خریدنے سے وہ مال تجارت ہوجائے گی اور مال نامی بن جائے گی تو اس کی وجہ سے زکوۃ لازم ہوگی۔
(۲)اور اگر زمیندار نے وہ زمین بیچنے کی نیت سے نہ خریدی ہو تو وہ مالِ تجارت نہ ہوگی، لہذامالِ نامی بھی نہ بنے گی اور اُس کی وجہ سے زکوۃ فرض نہیں ہوگی، ہاں البتہ اگر وہ زمین حاجت اصلیہ سے زائد ہو جیسےوہ زمین کسی استعمال میں نہ ہو،بس ایسے ہی خالی پڑی ہو، یا خالی تو نہ ہوبلکہ زمیندار اس پر کھیتی باڑی کرتا ہو، یا اُسے کرایہ پر دیا ہوا ہو، مگرصرف اسی زمین کی آمدنی پر اس کے یا اس کے اہل وعیال کا گزر بسر موقوف نہ ہو، بلکہ اور بھی آمدنی کے ذرائع حاجت کے مطابق موجود ہو ں تو اب بھی وہ زمین اس کی حاجت اصلیہ سے زائد ہی کہلائے گی، لہذا بہرصورت اگر وہ زمین خود یا دوسرے مالِ نامی، یا غیر نامی سے مل کر نصاب کے برابر ہو جائے اور زمیندار صدقہ فطر کے واجب ہونے کے وقت (یعنی عید الفطر کے دن صبح صادق کو) اُس زمین کا مالک بھی ہو تو اب اُس پر زمین کی وجہ سے صدقہ فطر لازم ہوگا،اور قربانی کے ایام میں قربانی بھی واجب ہوگی، لیکن اگر کھیتی باڑی والی زمین ،یا کرایہ پر دی جانے والی زمین ہی آمدنی کا ذریعہ ہو کہ اسی زمین پر اس کے، یا اس کے اہل و عیال کا گزربسر ہوتا ہو ،تواس صورت میں وہ زمین اس کی حاجت اصلیہ میں شامل ہوگی، لہذا اب صرف اس زمین کی وجہ سے صدقہ فطر و قربانی واجب نہیں ہوں گے۔
زکوۃ میں نصاب کا مال نامی ہونا شرط ہے،چنانچہ فتاو ی عالمگیری میں ہے: ’’ومنھا کون النصاب نامیا‘‘ ترجمہ: زکوۃ کی شرائط میں مال کا نامی ہونا بھی ہے۔(الفتاوی الھندیۃ، جلد 1، صفحہ 192، دار الکتب العلمیہ، بیروت)
صدقہ فطر میں نصاب کا مال نامی ہونا شرط نہیں، چنانچہ تنویر الابصار میں ہے: ’’تجب علی کل مسلم ذی نصاب فاضل عن حاجتہ الاصلیۃ وان لم ینم‘‘ترجمہ:صدقہ فطر ہر ایسےمسلمان صاحب نصاب پرواجب ہےجس کا نصاب حاجت اصلیہ سے زائد ہو،اگرچہ وہ نصاب مالِ نامی نہ ہو۔(تنویر الابصار، جلد 3، باب صدقۃ الفطر، صفحہ 365، دار المعرفۃ، بیروت)
سونا،چاندی اور چرائی کے جانوروں کے علاوہ کسی چیز میں زکوۃ اس وقت واجب ہوگی جب اُسے تجارت کی نیت سے خریدا جائے،ورنہ نہیں،چنانچہ درمختار میں ہے: ”الاصل ان ما عدا الحجرین والسوائم انما یزکی بنیۃ التجارۃ“ ترجمہ: اصول یہ ہے کہ دو پتھر(یعنی سوناچاندی) اور چرائی کے جانوروں کے علاوہ چیزوں میں تجارت کی نیت ہونے کے سبب زکوۃ ادا کی جائے گی۔(در مختار، جلد 3، صفحہ 230، دار المعرفۃ، بیروت)
بہار شریعت میں ہے:’’سونے چاندی میں مطلقاً زکاۃ واجب ہے، جب کہ بقدر نصاب ہوں اگرچہ دفن کر کے رکھے ہوں، تجارت کرے یا نہ کرے اور ان کے علاوہ باقی چیزوں پر زکاۃ اس وقت واجب ہے کہ تجارت کی نیّت ہو یا چرائی پر چھوٹے جانور‘‘۔(بہار شریعت، جلد 1، حصہ 5، صفحہ 882، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
لہذا اگر زمیندار نے زمین بیچنے کی نیت سے خریدی ہو، توسال پورا ہونے پر اُس کی قیمت کے اعتبارسے زکوٰۃ فرض ہوگی، چنانچہ مبسوط سرخسی میں ہے: ’’ان اشتری داراللتجارۃ فحال علیھا الحول زکاھامن قیمتھا‘‘ ترجمہ: اگرکسی نےتجارت کےلئےمکان خریدا، تو سال مکمل ہونےپر وہ شخص اُس کی قیمت کےاعتبار سےاُس کی زکوٰۃ دےگا۔(المبسوط للسرخسی، جلد 2، صفحہ 207، دار المعرفۃ، بیروت)
تحفۃ الفقہاء میں ہے: ’’كل ما كان من أموال التجارة كائنا ما كان من العروض والعقار والمكيل والموزون وغيرها تجب فيه الزكاة إذا بلغ نصاب الذهب أو الفضة وحال عليه الحول‘‘ ترجمہ: اموال تجارت میں سے ہر ایک چیز، چاہے وہ جو بھی ہو یعنی سامان، جائیداد، مکیلی اور موزونی وغیرہا چیزیں، تو جب یہ سونے یا چاندی کے نصاب کے برابر پہنچ جائیں اور اُن پر سال گزرجائے تو اِن میں زکوۃ واجب ہوگی۔(تحفۃ الفقھاء، جلد 1، صفحہ 271، دار الکتب العلمیہ، بیروت)
وقار الفتاوی میں ہے: ’’کسی چیز کو خریدنےکےوقت اگر یہ ارادہ ہے کہ اس کو فروخت کرے گا،تو وہ مال تجارت ہو جاتاہے،اس کی قیمت پر زکوٰۃ ہوتی ہے۔‘‘(وقار الفتاوی، جلد 2، صفحہ 388، بزم وقار الدین، کراچی)
ذریعہ آمدنی والی زمین ہوتو اس کی وجہ سے صدقہ فطر و قربانی واجب نہیں ہوں گے،چنانچہ سیدی اعلی حضرت امام احمد رضاخان علیہ رحمۃ الرحمن سے فتاوی رضویہ میں سوال ہو کہ ایک شخص برائے نام صاحب جائدا د ہے۔ سو روپیہ سالانہ آمدن کی جائداد ہے۔ وہ شخص ماہوار کا نوکر بھی ہے جو اس کی ضروریات دنیویہ کو کافی ہے۔ کسی سال میں کچھ نہیں بچتا، اس کی بیوی کے پاس تقریبا (معہ ۷۰ ) روپیہ کا زیور ہے۔ ۵۰ کا طلائی باقی نقرئی، اب ایسی صورت میں یہ تو ظاہر ہے کہ زکوٰۃ میاں بی بی دو میں کسی پر واجب نہیں مگر صدقہ فطر وقربانی ان دونوں یا ایک پر واجب ہے یانہیں؟ اور ہے تو کس پر؟
اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے جواب ارشاد فرمایا: ’’ستر روپیہ کا زیور اگر مملوکِ زن(عورت کی ملک) ہے اور اس پر قرض نہیں تو اس پر نہ صرف اضحیہ وصدقہ فطر بلکہ زکوٰۃ بھی فرض ہے کہ اگر چہ( صہ) کے سونے (عہ) کی چاندی میں کسی کی نصاب کامل نہیں، مگر سونے کو چاندی کرنے سے چاندی کی نصاب کامل مع زیادہ ہوجائے گی، ہاں شوہر پر صدقہ واضحیہ(قربانی) بھی نہیں۔۔۔ مگر ان علماء کے نزدیک کہ ایجاب صدقہ واضحیہ میں قیمت جائداد کا اعتبار کرتے ہیں اور راجح ومفتی بہ اوّل ہے (یعنی صدقہ فطر و قربانی کا واجب نہ ہونا)۔
ہندیہ میں ظہیریہ سے ہے: ’’ان کان لہ عقار ومستغلات ملک اختلف المشائخ المتاخرون رحمہم ﷲ فالزعفرانی والفقیہ علی الرازی اعتبر اقیمتھا، وابو علی الدقاق وغیرہ اعتبر الدخل، واختلفوا فیما بینھم، قال ابوعلی الدقاق ان کان یدخل لہ من ذٰلک قوت سنۃ فعلیہ الاضحیۃ ومنھم من قال قوت شھر و متی فضل من ذٰلک قدر مائتی درھم فصاعدا فعلیہ الاضحیۃ‘‘ اگر کسی کی زمین اور آمدن والی ملکیت ہو تو متاخرین مشائخ کااختلاف ہے تو زعفرانی اور فقیہ علی رازی نے قیمت کا اعتبار کیا ہے اور ابو علی الدقاق وغیرہ نے آمدن کا اعتبار کیا ہے اور ان کا آپس میں اختلاف ہوا اور ابوعلی الدقاق نے کہا اگر اس کو ان اشیاء سے سال بھر کے خرچہ کی آمدن ہو تو اس پر قربانی واجب ہے اور ان میں سے بعض نے کہا کہ ماہانہ خرچہ کی آمدن ہو اور جب سال بھر میں دو سو درہم یا زائد فاضل بچ جائے تو اس پر قربانی واجب ہے۔
ردالمحتارمیں ہے: ’’سئل محل عمن لہ ارض یزرعھا أو حانوت یستغلھا أو دار غلتھا ثلثۃ الاف ولاتکفی لنفقتہ ونفقۃ عیالہ سنۃ یحل لہ اخذالزکوٰۃ ،وان کانت قیمتہ تبلغ الوفا وعلیہ الفتوی وعندھما لا یحل‘‘ امام محمد رحمہ اللہ تعالی ٰسے سوال کیا گیا ایسے شخص کے متعلق کہ اس کی زرعی زمین یا دکان یا مکان کا کرایہ آمدن تین ہزار ہے اور اس کے اور اس کے عیال کے سال بھر کے نفقہ کے لئے کافی نہیں اس کو زکوٰۃ حلال ہے اگر چہ زمین کی قیمت ہزاروں کو پہنچی ہو، اور اسی پر فتوٰی ہے اور شیخین کے نزدیک حلال نہیں۔
درمختار کے صدقہ فطر میں ہے :’’تجب علی کل مسلم ذی نصاب فاضل عن حاجتہ الاصلیۃ وان لم ینم، وبھذا النصاب تحرم الصدقۃ، وتجب الاضحیۃ ونفقۃ المحارم علی الراجح اھ قلت فالذی لہ ارض قیمتھا ا لوف کما وصف لو کان تجب علیہ الاضحیۃ لحرمت علیہ الزکوٰۃ لکنھا لم تحرم فالاضحیۃ لم تجب،وﷲتعالٰی اعلم‘‘ ہر مالک نصاب مسلمان پر کہ اس کی اصل حاجت سے زائد ہو اگر چہ یہ نصاب نامی نہ ہو تو راجح قول پر محارم کا نفقہ اور قربانی واجب ہے اور اس نصاب کے سبب زکوٰۃ لینا حرام ہوجاتاہے ، میں کہتاہوں جس کے پاس زمین ہے جس کی قیمت ہزاروں ہے جیسے بیان کیا گیا ہے اگر اس پر قربانی واجب ہے تو(پھر) اس کو زکوٰۃ لینا حرام ہے لیکن زکوٰۃ حرام نہیں، لہذا قربانی (بھی)واجب نہیں، واللہ تعالٰی اعلم۔“(فتاوی رضویہ، جلد 20، صفحہ 368،367،366، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم