
مجیب: ابومحمد محمد فراز عطاری مدنی
مصدق: مفتی ابو محمد علی اصغر عطاری مدنی
فتوی نمبر: Gul-3339
تاریخ اجراء: 27 جمادی الاولٰی 1446 ھ/ 30 نومبر 2024 ء
دار الافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ اللہ پاک نے قرآن مجید میں اپنی ذات کے لیے متعدد مقامات پر جمع کا صیغہ ارشاد فرمایا ہے جیسے
”وَ نَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْهِ مِنْكُمْ“ ”اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَ اِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ“ ”نَحْنُ خَلَقْنٰكُمْ فَلَوْ لَا تُصَدِّقُوْنَ“
وغیرہ۔ پوچھنا یہ ہے کہ جب اللہ پاک وحدہ لاشریک ہے تو پھر جمع کا صیغہ اپنے لئے ارشاد فرمانے میں کیا حکمت ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
قرآن پاک میں اللہ پاک نے اپنے لئے جو جمع کے صیغے ارشاد فرمائے ہیں، اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ یہ عظمت و تعظیم کے لیے ہے۔ اس کی دوسری وجہ یہ بھی مفسرین نے بیان فرمائی ہے کہ جہاں پر اللہ پاک نے اپنے لئے جمع کا صیغہ ارشاد فرمایا ہے وہاں اللہ پاک کی ذات ،صفات اور اسماء کی طرف اشارہ ہوتا ہے اور جہاں اپنے لئے واحد کا صیغہ ارشاد فرمایا ہے وہاں صرف اللہ پاک کی ذات کی طرف اشارہ ہوتا ہے۔
یاد رہے کہ بندوں کے لیے بہتریہی ہے کہ وہ اللہ پاک کے لیے واحد کا صیغہ استعمال کریں اگرچہ جمع کے صیغے کے استعمال میں بھی حرج نہیں ہے۔
تفسیرکبیر میں ہے:
”قد يعبر عن الواحد بلفظ الجمع، و المراد التعظيم قال الله تعالى: اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ“
ترجمہ: کبھی واحد کو جمع کے لفظ سے تعبیرکیا جاتا ہے اور وہاں تعظیم مراد ہوتی ہے جیسے اللہ پاک کا فرمان:(ترجمہ کنزلایمان) بے شک ہم نے اتارا ہے یہ قرآن۔ (تفسیر کبیر جلد 17، صفحہ 289، مطبوعہ بیروت)
حکیم الامت مفتی احمدیارخان نعیمی رحمہ اللہ تفسیر نعیمی میں
”وَ اِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰٓىٕكَةِ“
کے تحت فرماتے ہیں: ”خیال رہے کہ ”قُلْنَا“ جمع کا صیغہ ہے، رب تعالیٰ نے اپنے لئے واحد کا صیغہ بھی فرمایا ہے بیان توحید کیلئے، جمع کا بھی، اظہارعظمت کیلئے۔“ (تفسیرنعیمی جلد 1، صفحہ 242، مطبوعہ لاہور)
جمع کے صیغے کی دوسری وجہ بیان کرتے ہوئے صراط الجنان میں فرمایا: ”علامہ اسماعیل حقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’یاد رکھیں کہ(قرآنِ پاک میں ) جب اللہ تعالیٰ اپنی ذات کے بارے میں جمع کے صیغہ کے ساتھ کوئی خبر دے تو اس وقت وہ اپنی ذات، صفات اور اَسماء کی طرف اشارہ فرما رہا ہوتا ہے، جیسے ایک مقام پر ارشاد فرمایا:
’’اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَ اِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ‘‘
(ترجمہ کنزالایمان : بے شک ہم نے اتارا ہے یہ قرآن،اور بے شک ہم خود اس کے نگہبان ہیں۔)اور جب اللہ تعالیٰ واحد کے صیغہ کے ساتھ اپنی ذات کے بارے میں کوئی خبر دے تو اس وقت وہ صرف اپنی ذات کی طرف اشارہ فرما رہا ہوتا ہے،جیسے ایک مقام پر ارشاد فرمایا:
’’اِنِّیْۤ اَنَا اللّٰهُ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ“
ترجمہ کنزالایمان :بیشک میں ہی ہوں اللہ، رب سارےجہان کا۔ (صراط الجنان جلد 9، صفحہ 693۔ 694 مطبوعہ مکتبۃ المدینہ، کراچی)
بندوں کیلئے بہتریہی ہے کہ وہ اللہ پاک کیلئے واحد کا صیغہ استعمال کریں، اگرچہ جمع کا لفظ بولنا بھی جائز ہے۔ امام اہلسنت امام احمدرضا خان رحمہ اللہ سے سوال ہوا: ” تعظیماً جمع کالفظ خد اکی شان میں بولنا جائزہے یانہیں؟ جیسے کہ ”اللہ جل شانہ یوں فرماتے ہیں“۔ اس کے جواب میں فرمایا: حرج نہیں، اور بہتر صیغہ واحد ہے کہ واحد احد کے لیے وہی انسب ہے“ (فتاوی رضویہ جلد 11، صفحہ 207، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاھور)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم