دار الافتاء اہلسنت (دعوت اسلامی)
سوال
اللہ تعالی کو غصہ آ جائے گا، یوں کہنا کیسا؟
جواب
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
لفظِ "غصہ" کے اصل معنی ”اچھّو“ کے ہیں، یعنی کھانے کا گلے میں پھنسنا، اس سے استعارہ کر کے ایسے غضب پر اس کا اطلاق ہوتا ہے، جسے آدمی کسی خوف یا لحاظ سے ظاہر نہ کر سکے، گویا دل کا جوش گلے میں پھنس کر رہ گیا، اور یہ معنی ہرگز اللہ تعالی کےلائق نہیں، لہذا یہ لفظ اللہ تعالی کے لیے استعمال نہ کیاجائے، اس کی جگہ لفظِ "غضب" استعمال کیا جائے۔
فتاوی رضویہ میں ہے ”اصل معنیِ لفظ اور محاوراتِ عرفیہ دونوں کے لحاظ سے ہر مقام پر اس (احتیاط) کا کمال پاس رہے۔ مثلاً(غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْهِمْ)کا یہ ترجمہ کہ جن پر غصہ ہوا، یا تو نے غصہ کیا، فقیر کو سخت ناگوار ہے۔ غصہ کے اصل معنی اچھّو کے ہیں، یعنی کھانے کا گلے میں پھنسنا، جیسے "طَعَامًا ذَا غُصَّةٍ" فرمایا۔ اس سے استعارہ کر کے ایسے غضب پر اس کا اطلاق ہوتا ہے جسے آدمی کسی خوف یا لحاظ سے ظاہر نہ کر سکے، گویا دل کا جوش گلے میں پھنس کر رہ گیا۔ عوام کہ دقائقِ کلام سے آگاہ نہیں، فرق نہ کریں۔ مگر اصل حقیقت یہی ہے کہ علماء پر اس کا لحاظ لازم ہے۔ ترجمہ یوں ہوا: "نہ ان کی جن پر تو نے غضب فرمایا، یا جن پر تیرا غضب ہے، یا جن پر غضب ہوا، یا جو غضب میں ہیں"۔“ (فتاوی رضویہ، جلد 26، صفحہ 457، رضا فاونڈیشن، لاہور)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مولانا محمد نور المصطفیٰ عطاری مدنی
فتوی نمبر: WAT-4521
تاریخ اجراء: 17 جمادی الاخریٰ 1447ھ / 09 دسمبر 2025ء