
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ اگر کسی نے کہا کہ "اللہ نے میری موت (Death) کا وقت بھی فکس نہیں کیا؟" تو کیا حکم ہوگا؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
اللہ کریم ہر شے کا خالق و مالک ہے اور اس نے عظیم حکمتوں کے مطابق نظام کائنات مقرر فرمایا ہے، اسی نظام کا حصہ موت کا آنا بھی ہے، پس اس نے ہر جاندار کی موت کے وقت، جگہ اور کیفیت کو طے فرما رکھا ہے اور اسی کے مطابق اسے موت آتی ہے، یہی اسلامی عقیدہ ہے جو کہ قرآن و حدیث سے ثابت ہے۔ سوال میں مذکور جملہ کس سیاق و سباق میں ہے، اس کی وضاحت کی حاجت ہے ورنہ اپنے اطلاق کے اعتبار سے یہ جملہ بلا شبہہ کفریہ ہے؛ کہ قرآن کریم کی نص کے خلاف اور عقائد اسلامیہ کے برعکس ہے، لہذا جانتے بوجھتے ایسا کہنے والا دائرۂ اسلام سے خارج ہے، اس پر فوراً توبہ و تجدید ایمان، نیز نکاح ہونے کی صورت میں تجدید نکاح کرنا لازم ہے۔
اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:
﴿وَ مَا كَانَ لِنَفْسٍ اَنْ تَمُوْتَ اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰهِ كِتٰبًا مُّؤَجَّلًا﴾
ترجمہ کنز العرفان: اور کوئی جان اللہ کے حکم کے بغیر نہیں مر سکتی، سب کا وقت لکھا ہوا ہے۔ (پارہ 4، سورۃ آل عمران 3، آیت 145)
محی السنہ ابو محمد حسین بن مسعود بغوی شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (سال وفات: 510 ھ) اس آیت کے تحت لکھتے ہیں:
”أي: كتب لكل نفس أجلا لا يقدر أحد على تقديمه و تأخيره“
ترجمہ: یعنی اللہ تعالیٰ نے ہر جان کے لیے ایک مقرر وقت لکھ دیا ہے، جسے نہ کوئی جلدی لا سکتا ہے اور نہ ہی مؤخر کر سکتا ہے۔ (تفسير بغوي، جلد 1، صفحہ 518، دار إحياء التراث العربي، بيروت)
علامہ ابو البركات عبد اللہ بن احمد نسفی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (سال وفات: 710 ھ) لکھتے ہیں:
”المعنى كتب الموت كتابا "مؤجلا" مؤقتا له أجل معلوم لا يتقدم و لا يتأخر“
ترجمہ: (آیت مبارکہ کا) معنی یہ ہے کہ اللہ پاک نے موت کو مؤجل یعنی وقت مقررہ کے ساتھ لکھ دیا ہے، ہر جان کی موت کے لیے ایسا معین وقت ہے جو نہ آگے ہو سکتا ہے اور نہ پیچھے۔ (مدارك التنزيل وحقائق التأويل، جلد 1، صفحہ 298، دار الكلم الطيب، بيروت)
حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (سال وفات: 1391ھ) لکھتے ہیں: ” اجل بمعنی موت، یعنی اللہ تعالیٰ نے ہر ایک کی موت مقرر کر کے کتاب لوح محفوظ میں لکھ دی ہے کہ کون، کب، کہاں اور کس طرح مرے گا۔ کتاب سے مراد یا تو لوح محفوظ ہے جس میں قیامت تک کے سارے واقعات من و عن لکھ دئیے گئے ہیں، یا ہر شخص کی اپنی کتاب مراد ہے جو کا تب تقدیر نے ماں کے پیٹ میں ہی بچے کی پیشانی پر لکھ دی ہے، جس میں اس کے سارے حالات من و عن درج ہیں۔“ (تفسیر نعیمی، جلد 4، صفحہ 253-254، مکتبہ اسلامیہ، لاہور)
امام ابو جعفر احمد بن محمد طحاوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (سال وفات: 321ھ) لکھتے ہیں:
”خلق الخلق بعلمه و قدر لهم أقدارا و ضرب لهم آجالا“
ترجمہ: اللہ پاک نے مخلوق کو اپنے علم سے پیدا فرمایا، ان کے لیے تقدیریں بنائیں، اور ان کی موت کے اوقات مقرر فرمائے۔ (متن العقيدة الطحاوية، صفحہ 10، مطبوعہ بيروت)
علامہ اکمل الدین محمد بن محمد الرومی البابرتی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (سال وفات: 786 ھ) اس کے تحت لکھتے ہیں:
”قوله" و ضرب لهم آجالا" وهذا تحقيق بأن الأجل المضروب لكل واحد منهم مبرم محكم لا يحتمل التقدم و التأخر، قال الله تعالى:﴿فَاِذَا جَآءَ اَجَلُهُمْ لَا یَسْتَاْخِرُوْنَ سَاعَةً وَّ لَایَسْتَقْدِمُوْنَ﴾ [الأعراف / ٣٤] و قوله تعالى: ﴿كِتٰبًا مُّؤَجَّلًا﴾ [آل عمران / ١٤٥] فيه معنيان أحدهما كتابا مؤقتا لا يتقدم و لا يتأخر و الثاني كتابا مبينا في اللوح المحفوظ“
ترجمہ: علامہ طحاوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا قول کہ"اللہ تعالیٰ نے مخلوق کی موت کے اوقات مقرر فرمائے" یہ اس بات کی تحقیق ہے کہ مخلوق میں سے ہر ایک کا جو وقتِ اجل مقرر ہے، وہ قطعی اور محکم ہے، جو تقدیم و تاخیر کا احتمال نہیں رکھتا، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: "تو جب ان کی وہ مدت آ جائے گی تو ایک گھڑی نہ پیچھے ہو ں گے اور نہ ہی آگے۔" اور ارشاد باری تعالیٰ: "سب کا وقت لکھا ہوا ہے" اس میں دو معنی ہیں: ایک یہ کہ معین وقت لکھا ہوا ہے جو نہ آگے ہو سکتا ہے نہ پیچھے، اور دوسرا یہ کہ لوح محفوظ میں واضح طور پر لکھا ہوا ہے۔ (شرح عقيدة اهل السنة والجماعة، صفحہ 52-53، مطبوعہ كويت)
علامہ ابو عبد الرحمن عبد العزیز بن احمد پرہاروی حنفی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (سالِ وفات: 1239 ھ) لکھتے ہیں:
”ان الله تعالى قد حكم بآجال العباد على ما علم من غير تردد ... أما إثبات الحكم فللنصوص القاطعة بأن الكائنات مقدرة، وأما نفي التردد فلأنه علامة الجهل“
ترجمہ: اللہ تعالیٰ نے بندوں کی عمریں اپنے علم کے مطابق بغیر کسی تردد کے مقرر فرما دی ہیں۔ جہاں تک ان کے مقرر ہونے کے اثبات کا تعلق ہے، تو قطعی نصوص (کے اس بات پر دلالت کرنے) کی وجہ سے کہ تمام واقعات مقدر شدہ ہیں۔ اور جہاں تک تردد کی نفی کا تعلق ہے، تو اس کی وجہ یہ ہے کہ تردد جہالت کی نشانی ہے (اور اللہ پاک ہر طرح کے جہل سے پاک ہے)۔ (النبراس شرح شرح العقائد النسفية، الكلام في الأجل، صفحہ 408، مکتبۃ یاسین، استنبول)
امام ابو منصور محمد بن محمد ماتریدی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (سال وفات: 333 ھ) لکھتے ہیں:
”لو أنكر آية من آيات اللہ تعالى كفر بالله، و بالكتب و بالرسل كلها“
ترجمہ: اگر کوئی اللہ تعالیٰ کی آیات میں سے کسی آیت کا بھی انکار کرے، تو وہ اللہ پاک کا، تمام آسمانی کتابوں کا اور تمام رسولوں کا منکر اور کافر ہو جائے گا۔(تاويلات أهل السنة، جلد 3، صفحہ 387، دار الكتب العلمية، بيروت)
علامہ فرید الدین عالم بن العلاء ہندی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (سال وفات: 786 ھ) لکھتے ہیں:
”إذا أنكر آية من القرآن أو سخر بآية من القرآن، و في الخزانة أو عاب، فقد كفر“
ترجمہ: جب کوئی شخص قرآن کی کسی آیت کا انکار کرے، یا کسی آیت کا مذاق اڑائے، اور الخزانۃ میں ہے: یا اسے عیب لگائے، تو بلا شبہہ وہ کافر ہو جاتا ہے۔ (الفتاوی التاتارخانیة، کتاب احکام المرتدين، الفصل العاشر فيما يتعلق بالقرآن، جلد 7، صفحہ 315، مطبوعه کوئٹہ)
علامہ زین الدین بن ابراہیم ابن نجیم مصری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (سال وفات: 970ھ)لکھتے ہیں:
”و يكفر إذا أنكر آية من القرآن“
ترجمہ: اور جب کوئی شخص کسی آیتِ قرآنی کا انکار کرے تو اس کی تکفیر کی جائے گی۔ (البحر الرائق شرح کنز الدقائق، کتاب السیر، باب أحكام المرتدين، جلد 5، صفحہ 131، دار الكتاب الإسلامي)
امام اہل سنت اعلی حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (سال وفات: 1340 ھ) لکھتے ہیں: ”آیت کو نہ ماننا یعنی انکار کرنا کفر ہے۔“ (فتاوی رضویہ، جلد 14، صفحہ 318، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
شیخ طریقت امیر اہل سنت مولانا الیاس قادری دامت برکاتہم العالیہ لکھتے ہیں: ”جو شخص قرآن شریف یا اس میں سے کسی حصہ کی توہین کرے، یا اس کو گالی دے، یا اس کا انکار کرے، یا اس کے کسی حرف کا یا کسی آیت کا انکار کرے یا اس کو جھٹلائے، یا اس کے کسی حصہ یا کسی حکم کو جھٹلائے جس کی اس میں تصریح کی گئی ہے، یا جس کی اس میں نفی کی گئی(یعنی انکار کیا گیا)ہے اُس کو ثابت کرے یا جس کو اس میں ثابت کیا گیا ہے اُس کی نفی (یعنی انکار) کرے حالانکہ وہ انکار کرنے والا اس کو جانتا ہے یا اس میں کچھ شک کرتا ہے تو وہ بالاجماع علمائے کرام کے نزدیک کافر ہے۔“ (کفریہ کلمات کے بارے میں سوال جواب، صفحہ 188، مکتبة المدینہ، کراچی)
شارح بخاری مفتی شریف الحق امجدی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (سال وفات: 1421 ھ) لکھتے ہیں: ”کلمۂ کفر بکنے والے پرتو بہ و تجدید ایمان و نکاح کا حکم لازم ہے؛ اس لیے کہ کلمۂ کفر بکنے کے بعد آدمی اسلام سے خارج ہو کر کافر ہو جاتا ہے، اب اس کو اسلام میں داخل ہونے کے لیے کلمۂ کفر سے براءت (اور) تو بہ فرض ہے، اور اسلام قبول کرنا بھی۔ اسی طرح کلمۂ کفر بکنے سے عورت نکاح سے نکل جاتی ہے، عورت کو نکاح میں لانے کے لیے تجدید نکاح ضروری ہے۔“ (فتاوی شارح بخاری، جلد 2، صفحه 288- 289، دائرۃ البرکات، گھوسی)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری
فتویٰ نمبر: FAM-782
تاریخ اجراء: 16 ذو الحجة الحرام 1446 ھ / 13 جون 2025 ء