مذاق میں مسلمان کو ہندو کہنا کیسا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

مذاق میں کسی کو ہندو کہنے کا حکم؟

دارالافتاء اہلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ مذاق میں اگر کوئی شخص کسی کو یوں بولے کہ ہندو کے ساتھ رہتے رہتے تُو بھی ہندو ہوگیا ہے، تو کیا حکم ہے؟

جواب

مسلمان کو کافر کہنے والے کے خود کافر ہونے یا نہ ہونے کی دو صورتیں فقہائے کرام نے بیان کی ہیں:پہلی صورت: اگر کوئی شخص کسی مسلمان کو اعتقاداً کافر کہے، یعنی وہ دل سے یہ عقیدہ رکھے کہ یہ شخص حقیقت میں غیر مسلم ہے، حالانکہ اس میں کوئی کفریہ بات نہیں، تو ایسا کہنے والا خود کافر ہو جائے گا، کیونکہ کسی مسلمان کو کافر جاننا ،دراصل اسلام کو کفر جاننا ہے، اور جو اسلام کو کفر جانے وہ کافر ہوجاتا ہے۔دوسری صورت: اگر کوئی مسلمان دوسرے مسلمان کو محض گالی کے طور پر کافر کہے، جبکہ دل میں اس کے کافر ہونے کا کوئی اعتقاد نہ رکھتا ہو، تو ایسا شخص کافر نہیں ہوگا، البتہ وہ سخت گنہگار ہوگا۔

سوال میں جو بات بیان کی گئی ہے، اس میں عام طور پر کہنے والے کا مقصد کسی کو واقعی کافر سمجھنا نہیں ہوتا، بلکہ صرف یہ کہنا مقصد ہوتا ہے کہ وہ شخص کافروں کے ساتھ رہ کر اُن جیسی عادتیں، طور طریقے اور انداز اختیارکر بیٹھا ہے۔لہذا اگر کوئی شخص مذاق میں یوں کسی مسلمان کو کافر کہہ دے، اور دل میں یہ یقین نہ رکھے کہ وہ واقعی کافر ہے تو اس پر کفر کا حکم نہیں ہوگا، کیونکہ کسی کو کافر کہنے سے خود پر کفر کا حکم تب ہوتا ہے جب کسی مسلمان کو دل سے کافر سمجھے اور درحقیقت سامنے والے میں کوئی کفریہ بات موجود نہ ہو، جبکہ یہاں ایسا نہیں تو کہنے والے پر حکم کفربھی نہیں،جیسا کہ گالی کے طور پر کہنے والے پر حکم کفر نہیں۔ بہرحال مذاق میں بھی کسی کو اس طرح کہنا ناجائز و حرام ہے۔

شیخِ محقق شاہ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ لمعات التنقیح فی شرح مشکاۃ المصابیح میں لکھتےہیں:

إذا قال بقصد الكذب و السب من غير اعتقاد بطلان دين الاسلام، فقد يوجه

ترجمہ: جب اس نے دین اسلام کے باطل ہونے کے اعتقاد کے بغیر محض جھوٹ اور گالی دینے کے ارادے سے (کسی کو کافر) کہا، تو اس کی توجیہ کی جائے گی (یعنی قائل کو کافر نہیں کہا جائے گا)۔ (لمعات التنقیح، باب حفظ اللسان، جلد 8، صفحہ 142، مطبوعہ دار النوادر، دمشق)

مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ مرآۃ المناجیح شرح مشکاۃ المصابیح میں لکھتے ہیں: مسلمان کو کسی عقیدہ اسلامیہ کی وجہ سے کافر کہنے والا یا ایسے مسلمان کو جس کا اسلام یقینی قطعی ہو کہنے والا خود کافر ہے، بطور گالی کافر کہنے(والا) سخت گنہگار ہے۔ (مرآۃ المناجیح، جلد 6، صفحہ 356، نعیمی کتب خانہ، گجرات)

مسلمان کو کافر کہنے والے پر خود حکم کفر کی اصل وجہ مسلمان کو کافر اعتقاد کرنا ہوتاہے جس کا نتیجہ دین اسلام کو کفر سمجھنا ہے، اور یہ اسی صورت میں ہوگا کہ جب وہ مخاطب کے کافر ہونے کا اعتقاد کرے جبکہ اس میں کوئی کفریہ بات نہ ہو،البتہ اگر گالی کے طور پر کہا تو کافر نہیں ہوگا، چنانچہ رد المحتار علی الدرالمختار میں ہے:

و في الذخيرة المختار للفتوى أنه إن أراد الشتم ولا يعتقده كفرا لا يكفر وإن اعتقده كفرا فخاطبه بهذا بناء على اعتقاده أنه كافر يكفر؛ لأنه لما اعتقد المسلم كافرا فقد اعتقد دين الإسلام كفرا

ترجمہ: ذخیرہ میں ہے کہ فتویٰ کے لیے مختار قول یہ ہے کہ اگر (کسی کو کافر کہنے والا) گالی کا ارادہ کرے اور اس کے کافر ہونے کا اعتقاد نہ رکھتا ہو تو وہ کافر نہیں ہوگا، لیکن اگر وہ اس کے کافر ہونے کا اعتقاد رکھے اور اسی اعتقاد کی بنا پر اسے ’’کافر‘‘ کہہ کر مخاطب کرے تو وہ خود کافر ہو جائے گا، کیونکہ جب اس نے مسلمان کو کافر سمجھا تو دراصل دینِ اسلام ہی کو کفر سمجھ لیا(لہذا اس وجہ سے کافر ہوجائے گا)۔ (رد المحتار علی الدر المختار، جلد 6، صفحہ 111، دار المعرفۃ، بیروت)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

و المختار للفتوى في جنس هذه المسائل أن القائل بمثل هذه المقالات إن كان أراد الشتم ولا يعتقده كافرا لا يكفر، و إن كان يعتقده كافرا فخاطبه بهذا بناء على اعتقاده أنه كافر يكفر

ترجمہ: اس طرح کے مسائل میں فتویٰ کے لیے مختار قول یہ ہے کہ مسلمان کو کافر کہنے والے نے اگر اس طرح کے جملے سے گالی کا قصد کیا ہو، وہ مسلمان کو کافر اعتقاد نہ کرتا ہو، تو قائل کافر نہیں ہوگا اور اگر وہ دوسرے کوکافر اعتقاد کرتا ہے، تو اس اعتقاد کی بنا پر دوسرے کو کافر کہنے سے قائل خود کافر ہوجائے گا۔ (الفتاوی الھندیۃ، جلد 2، صفحہ 278،دار الکتب العلمیہ، بیروت)

کسی مسلمان کو کافر کہنا اگر کسی تاویل سے ہو توکہنے والاکافر نہیں ہوگا جیسے ایک تاویل کے بارے میں بریقہ محمودیہ فی شرح طریقۃ محمدیۃ میں ہے:

و في الروضة عن التتمة قال لمسلم يا كافر بلا تأويل كفر و إن بتأويل كفران نعمة لا كذا في الفيض

ترجمہ:روضہ میں تتمہ سے منقول ہے: اگر کسی مسلمان کو بغیر تاویل(یعنی کفریہ معنی کے علاوہ دوسرے کسی غیر کفریہ معنی کے طور پر) کہا کہ ’’اے کافر‘‘، تو کہنے والا کافر ہو جائے گا، اور اگر کفرانِ نعمت کی تاویل کے ساتھ کہا، تو کافر نہیں ہوگا۔ ’’فیض‘‘ میں بھی اسی طرح ہے۔ (بريقة محمودية في شرح طريقة محمدية، جلد 3، صفحہ 176، مطبعۃ الحلبی)

صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ بہار شریعت میں لکھتے ہیں: کسی مسلمان کو کافر کہا تو (کہنے والے پر)تعزیر ہے۔ رہا یہ کہ قائل خود کافر ہو گا یا نہیں؟ اس میں دو صورتیں ہیں: اگر اسے مسلمان جانتا ہے تو کافر نہ ہوا، اگر اسے کافر اعتقاد کرتا ہے ، تو خود کافر ہے کہ مسلمان کو کافر جاننا، دین اسلام کو کفر جاننا ہے۔ (بہارِ شریعت، جلد 2، حصہ 9، صفحہ 408، مکتبة المدینہ، کراچی)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتویٰ نمبر: FAM-968

تاریخ اجراء: 08 جمادی الاولی 1447ھ / 31 اکتوبر 2025ء