آسمانی کتابوں اور صحیفوں پر ایمان لانا ضروری ہے؟

آسمانی صحیفوں پر ایمان لانےکا حکم

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

چاروں آسمانی کتابوں پر ایمان لانا ضروری ہے، اللہ نے صحیفے بھی نازل کیے، ان پر ایمان لانے کی کیا شرعی حیثیت ہے؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

مشہور چار آسمانی کتابوں کی طرح اللہ پاک کے نازِل کردہ تمام صحیفوں پر ایمان لانا بھی فرضِ عین ہے، اللہ پاک کی نازِل کردہ کسی ایک بھی کتاب یا صحیفہ کا انکار کفر ہے۔ البتہ پچھلی آسمانی کتابوں اور صحیفوں کے جواحکام منسوخ ہوگئے ان پر عمل کرنا، جائزنہیں، عمل صرف قرآن پاک کے احکامات پرہوگا۔ پچھلی کتابوں اورصحیفوں پر ایمان کا مطلب یہ ہے کہ، یہ اعتقادرکھاجائے کہ اللہ پاک نے تورات نازِل فرمائی، زبور نازِل فرمائی، انجیل نازِل فرمائی، اس کے عِلاوہ انبیائے کرام علیھم الصلوۃ و السلام پر جو صحیفے نازِل فرمائے وہ سب حق ہیں، سچ ہیں، ان میں جو کچھ اللہ پاک نے نازِل فرمایا، وہ سب کا سب حق اورسچ ہے۔ ہاں ان میں لوگوں کی طرف سے بہت ساری تحریفات کردی گئی ہیں، اپنی طرف سے بہت ساری غلط باتیں شامل کردی گئی ہیں،وہ غلط وباطل ہی ہیں، اور ان کوغلط وباطل ہی کہاجائے گا۔ اور قرآنِ کریم کے متعلق یوں اعتقادرکھاجائے کہ: اَلْحَمْدُ کی الف سے لے کر وَ النَّاسُ کی سین تک قرآنِ کریم کا ایک ایک جملہ، ایک ایک لفظ، ایک ایک حرف حق ہے، سچ ہے، اللہ پاک کی طرف سے نازِل کردہ ہے، اس میں ایک حرف کی بھی کمی بیشی نہیں ہوسکتی، جو شخص قرآنِ کریم کے ایک لفظ کا بھی انکار کرے، وہ کافِر ہے، دائرۂ اسلام سے خارج ہے۔ قراٰن پاک کا تفصیلاً علم حاصل کرنا فرضِ کفایہ ہے۔

ارشاد باری تعالی ہے

﴿وَ الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِمَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ وَ مَاۤ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَۚ- وَ بِالْاٰخِرَةِ هُمْ یُوْقِنُوْنَ﴾

ترجمہ کنز العرفان: اور وہ ایمان لاتے ہیں اس پر جو تمہاری طرف نازل کیا اور جو تم سے پہلے نازل کیا گیا اور وہ آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔ (القرآن، پارہ 1، سورۃ البقرۃ، آیت: 4)

اس کے تحت صراط الجنان میں ہے ”یاد رکھیں کہ جس طرح قرآن پاک پر ایمان لانا ہر مکلف پر فرض ہے اسی طرح پہلی کتابوں پر ایمان لانا بھی ضروری ہے جوگزشتہ انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام پر نازل ہوئیں البتہ ان کے جو احکام ہماری شریعت میں منسوخ ہو گئے ان پر عمل درست نہیں مگر پھر بھی ایمان ضروری ہے مثلاً پچھلی کئی شریعتوں میں بیت المقدس قبلہ تھا لہٰذا اس پر ایمان لانا تو ہمارے لیے ضروری ہے مگر عمل یعنی نماز میں بیت المقدس کی طرف منہ کرنا جائز نہیں، یہ حکم منسوخ ہوچکا۔ نیز یہ بھی یاد رکھیں کہ قرآن کریم سے پہلے جو کچھ اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام پر نازل فرمایا ان سب پر اجمالاً ایمان لانا فرضِ عین ہے یعنی یہ اعتقاد رکھا جائے کہ اللہ تعالیٰ نے گزشتہ انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام پر کتابیں نازل فرمائیں اور ان میں جو کچھ بیان فرمایا سب حق ہے۔ قرآن شریف پریوں ایمان رکھنا فرض ہے کہ ہمارے پاس جو موجود ہے اس کا ایک ایک لفظ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور برحق ہے بقیہ تفصیلاً جاننا فرضِ کفایہ ہے لہٰذا عوام پر اس کی تفصیلات کا علم حاصل کرنا فرض نہیں جب کہ علماء موجود ہوں جنہوں نے یہ علم حاصل کرلیا ہو۔“ (صراط الجنان، جلد 1، صفحہ 68، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

ایک اور آیت میں فرمایا:

﴿قُلْ اٰمَنَّا بِاللّٰهِ وَ مَاۤ اُنْزِلَ عَلَیْنَا وَ مَاۤ اُنْزِلَ عَلٰۤى اِبْرٰهِیْمَ وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِسْحٰقَ وَ یَعْقُوْبَ وَ الْاَسْبَاطِ وَ مَاۤ اُوْتِیَ مُوْسٰى وَ عِیْسٰى وَ النَّبِیُّوْنَ مِنْ رَّبِّهِمْ۪- لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْهُمْ٘- وَ نَحْنُ لَهٗ مُسْلِمُوْنَ﴾

ترجمہ کنز العرفان: اور تم یوں کہو کہ ہم اللہ پر اور جو ہمارے اوپر نازل کیا گیا ہے اس پر اور جو ابراہیم اور اسماعیل اور اسحاق اور یعقوب اور ان کی اولاد پر نازل کیا گیا ہے اس پر ایمان لاتے ہیں اور جو موسیٰ اور عیسیٰ اور نبیوں کو ان کے رب کی طرف سے دیا گیا (اس پر بھی ایمان لاتے ہیں۔ نیز) ہم ایمان لانے میں ان میں سے کسی کے درمیان فرق نہیں کرتے اور ہم اسی کی بارگاہ میں گردن جھکائے ہوئے ہیں۔ (القرآن، پارہ3، سورۃ آل عمران، آیت: 84)

اس کے تحت صراط الجنان میں ہے ”یہودیوں اور عیسائیوں نے تو یہ کیا کہ کچھ نَبِیُّوں اور کتابوں پر ایمان لائے اور کچھ پر نہیں۔ ان کے مقابلے میں مسلمانوں سے فرمایا جارہا ہے کہ تم سب نبیوں اور سب کتابوں پر ایمان لاؤ خواہ وہ ابراہیمی صحیفے ہوں یا حضرت موسیٰ و عیسیٰ عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام کی کتابیں یا دیگر انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام کے صحیفے۔ ہمیں سب کو ماننے کا حکم ہے البتہ ہمارا عمل صرف قرآن پر ہوگا اور ہماری اطاعت و اتباع صرف حضور پرنور، محمد مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّمَ کی ہوگی۔ (صراط الجنان، جلد 1، صفحہ 509، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

تفسیر خازن میں ہے

و أما الإيمان بكتبه فهو أن يؤمن بأن الكتب المنزلة من عند اللہ هي وحي اللہ إلى رسله، و أنها حق و صدق من عند اللہ بغير شك و لا ارتياب، و أن القرآن لم يحرف و لم يبدل و لم يغير

ترجمہ: اور اس کی کتابوں پر ایمان لانے سے مراد یہ ہے کہ اس بات پر ایمان لانا کہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے نازل کی گئی کتابیں، اللہ کے رسولوں کی طرف اللہ کی وحی ہیں اور وہ اللہ کی طرف سے حق و سچ ہیں بغیر کسی شک و شبھہ کے، اور قرآن کی تحریف نہیں کی گئی اور نہ ہی اسے تبدیل کیا گیا۔ (تفسیر خازن، جلد 1، صفحہ 219، دار الکتب العلمیۃ، بیروت)

بہار شریعت میں ہے ”سب آسمانی کتابیں اور صحیفے حق ہیں اور سب کلام اللہ ہیں، اُن میں جو کچھ ارشاد ہوا سب پر ایمان ضروری ہے۔ (بہارِ شریعت، جلد 1، صفحہ 30، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مولانا محمد شفیق عطاری مدنی

فتوی نمبر: WAT-4321

تاریخ اجراء: 19 ربیع الآخر 1447ھ / 13 اکتوبر 2025ء