
دارالافتاء اھلسنت)دعوت اسلامی)
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہمارے ہاں بہت دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ جب کسی کو داڑھی رکھنے کی ترغیب دی جاتی ہے ،تو بہت سے لوگ جواباً یہ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ "جناب! اسلام میں داڑھی ہے، داڑھی میں اسلام نہیں۔ " داڑھی کے متعلق اس طرح کے جملےبول کر یہ باوَر کروانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ شرعی اعتبار سے داڑھی کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ برائے کرم شرعی رہنمائی فرمائیں کہ کیا اس طرح کے جملے بولنا درست ہے؟سائل: قاری جاوید( فیصل آباد )
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
داڑھی رکھنا تمام انبیائے کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلامْ کی سنتِ متوارثہ، مسلمانوں کا اسلامی شعار، فطرتِ انسانی کے عین مطابق اور مردانہ چہرے کی زینت ہے، رسول کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنی امت کو اس شعار کو اپنانے کا تاکیدی و واجبی حکم دیا، اسی لیے جمہور علمائے امت کے نزدیک داڑھی رکھنا واجب اور اس کو منڈانا یا کترواکر ایک مشت سےکم کرنا ، حرام و گناہ کبیرہ ہے اور اس کی تحقیر کرنا یا توہین آمیز لہجے میں اس پر طعن و تشنیع کرنا کفر ہے ۔
جہاں تک اس جملے " اسلام میں داڑھی ہے، داڑھی میں اسلام نہیں " کا تعلق ہے، تویہ مثبت و منفی دونوں اعتبار سے کہا جاتا ہے، اس کا حکم تو قائل کی مراد اور موقع محل کی مناسبت سے دیا جاسکتا ہے، البتہ اس بات میں تو کوئی شک ہی نہیں کہ دین اسلام میں داڑھی کے علاوہ اور بھی بہت سے فرائض، واجبات، سنتیں اور حقوق وغیرہ شامل ہیں اور ان سب کے مجموعے کو اسلام کہتے ہیں، صرف داڑھی ہی مکمل دین نہیں، لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ ہم کسی فرض واجب یا سنت و غیرہ کا یہ کہہ کر انکار کرتے جائیں کہ "یہ اسلام میں ہے، اس میں اسلام نہیں"، کیونکہ کسی شخص کا داڑھی رکھنا یا نہ رکھنا اس کا انفرادی معاملہ ہے، لیکن اگر شرعی احکام کے متعلق ہر کوئی اس طرح کے جملے کہنا شروع کر دے، تو دین کا مذاق بن جائے گا، مثلاً بے حیائی و فحاشی کو فروغ دینے والے لوگ کہیں گے "اسلام میں پردہ ہے، پردے میں اسلام نہیں"۔ "اسلام میں نکاح ہے، نکاح میں اسلام نہیں"۔ بے نمازی کہیں گے "اسلام میں نماز ہے، نماز میں اسلام نہیں"۔ وغیرہ۔ یوں داڑھی کے ساتھ ساتھ پردہ، نکاح، نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج وغیرہ سب رُخصت ہو جائیں گے۔ (العیاذ باللہ )
اس کو دنیاوی مثال سے یوں سمجھیے کہ کوئی شخص ملکی خزانے میں کرپشن و بددیانتی کرتا ہو اور جب اس کو روکا جائے کہ بھائی !بددیانتی کرنا آئین کے خلاف ہے، تو وہ آگے سے یہ کہے :جناب! "آئین میں دیانت داری ہے، دیانت داری ہی آئین نہیں"۔ تو ایسے شخص کو کوئی بھی عقل مند نہیں کہے گا، بلکہ وہ قانون کے مطابق سزا کا مستحق ہوگا کہ ہر حکم اور قانون کی اپنی اہمیت ہے، اسی طرح بلکہ اس سے کئی گنا بڑھ کر ہر ہر حکمِ شرعی کی اہمیت ہے۔لہٰذا سوال میں بیان کردہ جملہ "اسلام میں داڑھی ہے داڑھی میں اسلام نہیں" کا حکمِ شرعی یہ ہے کہ اگر کوئی شخص داڑھی کو شرعی حکم، اسلامی شعار اور لائقِ تعظیم سمجھتا ہے، لیکن عملی طور پر داڑھی منڈاتا یا ایک مٹھی سے گھٹاتا ہے،تو وہ گنہگار اور مسلسل ارتکاب کی صورت میں مرتکبِ کبیرہ ہے، لیکن اگر کوئی داڑھی کی توہین، تحقیر یا استہزا ء یعنی اس کا مذاق اڑاتے ہوئے اس طرح کا جملہ بولے،یا داڑھی کی اصلاً مشروعیت کا انکار کرتے ہوئے کہے تو اس پر حکمِ کفر ہے، جس سے توبہ و تجدیدِ ایمان لازم ہے۔
داڑھی کے تاکیدی حکم کے متعلق بخاری شریف میں ہے:
”عن ابن عمرعن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال خالفوا المشرکین وفروا اللحی وأحفوا الشوارب وکان ابن عمر إذا حج أو اعتمر قبض علی لحیتہ فما فضل أخذہ“
ترجمہ: حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: مشرکین کی مخالفت کرو، داڑھی بڑھاؤاورمونچھیں پست کرو۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما جب حج یا عمرہ کرتے،تو اپنی داڑھی مٹھی میں لیتےاور جو مٹھی سے زائد ہوتی، اسے کاٹ دیتے تھے۔ (صحیح البخاری، جلد 7،صفحہ 160، مطبوعہ دار طوق النجاۃ )
شیخ الاسلام و المسلمین اعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سنّت الشاہ امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1340ھ /1921ء) لکھتے ہیں: ”(داڑھی) اہل اسلام کے شعائر سے ہے اور اس کا خلاف ممنوع و حرام اور کفار کا شعار .... اور اس کی سنیت قطعی الثبوت، ایسی سنت کی توہین و تحقیر اور اس کے اتباع پر استہزاء بالاجماع كفر كما هو مصرح فى الكتب الفقهية والكلامية (جیسا کہ فقہ اور علم کلام کی کتابوں میں صراحتہ یہ مذکور ہے )۔ “ (فتاوی رضویہ، جلد 22، صفحہ 571، 573، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاھور )
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
مجیب : مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر: FSD-9410
تاریخ اجراء: 25 محرم الحرام 1447 ھ / 21 جولائی 2025 ء