نبی کریم ﷺ کو مالک و مختار کہنا کیسا؟

نبی پاک ﷺ کو مالک و مختار کہنا

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ میں کہ کیا نبی پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ و سلم کو مالک و مختار کہہ سکتے ہیں؟ اور اگر کہا تو کیا نیت ہونی چاہئے؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

بلاشبہہ نبی کریم رؤوف رحیم صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ و سلم، اللہ تبارک وتعالیٰ کی عطا اور فضلِ عظیم سے مالک و مختار ہیں، اور آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام کا مالک و مختار ہونا قرآنِ عظیم اور احادیثِ مبارکہ سے ثابت ہے۔

آپ صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ و سلم کو مالک و مختار کہتے ہوئے یہ نیت ہونی چاہئے کہ ہر چیز کا حقیقی مالک و مختار تو صرف اللہ تبارک و تعالیٰ ہی ہے، البتہ! اللہ تبارک وتعالیٰ کی خاص عنایت اور فضلِ عظیم سےحضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم، اللہ عزوجل کے نائبِ مطلق ہیں، تمام جہان حضور (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) کے کنٹرول میں دے دیا گیا، جو چاہیں کریں، جسے جو چاہیں دیں، جس سے جو چاہیں واپس لیں، تمام جہان میں اُن کے حکم کا پھیرنے والا کوئی نہیں، تمام جہان اُن کا محکوم ہے اور وہ اپنے رب کے سوا کسی کے محکوم نہیں، تمام آدمیوں کے مالک ہیں، جو اُنھیں اپنا مالک نہ جانے حلاوتِ سنّت سے محروم رہے، تمام زمین اُن کی ملک ہے، تمام جنت اُن کی جاگیر ہے، ملکوت السمٰواتِ و الارض حضور (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) کے زیر فرمان، جنت و نار کی کنجیاں دستِ اقدس میں دیدی گئیں، رزق و خیر اور ہر قسم کی عطائیں حضور (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) ہی کے دربار سے تقسیم ہوتی ہیں، دنیا و آخرت حضور (صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم) کی عطا کا ایک حصہ ہے، شرعی احکام حضور (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) کے قبضہ میں کر دیے گئے، کہ جس پر جو چاہیں حرام فرما دیں اور جس کے لیے جو چاہیں حلال کر دیں اور جو فرض چاہیں معاف فرما دیں۔

اللہ تبارک وتعالی کا ارشاد پاک ہے:

(قُلِ اللّٰهُمَّ مٰلِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِی الْمُلْكَ مَنْ تَشَآءُ وَ تَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشَآءُ٘- وَ تُعِزُّ مَنْ تَشَآءُ وَ تُذِلُّ مَنْ تَشَآءُؕ- بِیَدِكَ الْخَیْرُؕ- اِنَّكَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ)

ترجمہ کنز العرفان: یوں عرض کرو، اے اللہ !مُلک کے مالک! تو جسے چاہتاہے سلطنت عطا فرماتا ہے اور جس سے چاہتا ہے چھین لیتا ہے اور توجسے چاہتا ہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ذلت دیتا ہے، تمام بھلائی تیرے ہی ہاتھ میں ہے، بیشک تو ہر شے پر قدرت رکھنے والا ہے۔ (القرآن، پارہ 3، سورۃ آل عمران، آیت: 26)

اس آیت کے شانِ نزول کے متعلق تفسیر خزائن العرفان میں ہے "فتح مکہ کے وقت سید انبیاء صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو ملک فارس و روم کی سلطنت کا وعدہ دیا تو یہود و منافقین نے اس کو بہت بعید سمجھا اور کہنے لگے: کہاں محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ و سلم) اور کہاں فارس و روم کے ملک! وہ بڑے زبردست اور نہایت محفوظ ہیں۔ اس پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی اور آخر کار حضور کا وہ وعدہ پورا ہو کر رہا۔(خزائن العرفان، صفحہ 109، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

صحیح بخاری اورصحیح مسلم میں ہے، نبی پاک صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا:

و اعلموا أن الأرض لله و رسوله 

ترجمہ: اورتم جان لوکہ!زمین اللہ تعالی اوراس کے رسول صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کی ہے۔(صحیح البخاری، کتاب الجزیۃ، ج 04، ص 99،دار طوق النجاۃ)

صحیح بخاری میں ہے

عن عقبة رضي اللہ عنه:أن النبي صلی اللہ علیہ و سلم خرج يوما، فصلى على أهل أحد صلاته على الميت، ثم انصرف على المنبر، فقال: إني فرط لكم، و أنا شهيد عليكم، وإني واللہ لأنظر إلى حوضي الآن، و إني أعطيت مفاتيح خزائن الأرض، أو مفاتيح الأرض، وإني واللہ ما أخاف عليكم أن تشركوا بعدي، و لكن أخاف عليكم أن تنافسوا فيها

 ترجمہ: حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم ایک دن باہر تشریف لائے اور جنگ احد کے شہیدوں کے لیے اس طرح نماز پڑھی جیسے میت کے لیے پڑھی جاتی ہے، پھر آپ منبر پر تشریف لائے اور فرمایا: آخرت میں، میں تم سے آگے جانے والا ہوں اور میں تم پر گواہ ہوں، اللہ کی قسم میں اپنے حوض کو اس وقت بھی دیکھ رہا ہوں اور مجھے زمین کے خزانوں کی کنجیاں دی گئی ہیں یا (فرمایا کہ) زمین کی کنجیاں دی گئی ہیں، اور اللہ کی قسم میں تمہارے متعلق اس سے نہیں خوف کرتا کہ تم میرے بعد شرک میں مبتلا ہو جاؤ گے لیکن مجھے تمہارے متعلق یہ خوف ہے کہ تم دنیا میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کر گے۔ (صحیح البخاری، جلد5، حصہ 2408، حدیث: 6218، مطبوعہ: دمشق)

صحیح مسلم میں حضرت ربیعہ بن کعب اسلمی سے مروی ہے، فرمایا:

كنت أبيت مع رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ و سلم فأتيته بوضوئه و حاجته فقال لي: سل. فقلت: أسألك مرافقتك في الجنة! قال: أو غير ذلك؟ قلت: هو ذاك. قال: فأعني على نفسك بكثرة السجود

 ترجمہ: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ رات گزارتا تھا، پس میں وضو کا پانی اور ضرورت کا سامان لے کر آپ علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس حاضر ہوا تو آپ علیہ الصلوۃ و السلام نے فرمایا:مانگو! میں نے عرض کی: میں آپ سےجنت میں آپ کا ساتھ مانگتا ہوں، فرمایا: کیا اس کے سوا کچھ اوربھی چاہیے؟ میں نے عرض کی: بس یہی، فرمایا: تم اپنے معاملے میں سجدوں کی کثرت سے میری مدد کرو۔(صحیح مسلم، جلد2، صفحہ 52، حدیث: 489، مطبوعہ: ترکیا)

ملا علی قاری علیہ الرحمۃ اس حدیث کے تحت فرماتے ہیں:

و يؤخذ من إطلاقه عليه السلام الأمر بالسؤال أن اللہ تعالى مكنه من إعطاء كل ما أراد من خزائن الحق، و من ثم عد أئمتنا من خصائصه عليه السلام أنه يخص من شاء بما شاء، كجعله شهادة خزيمة بن ثابت بشهادتين رواه البخاري، و كترخيصه في النياحة لأم عطية في آل فلان خاصة، رواه مسلم، قال النووي: للشارع أن يخص من العموم ما شاء، و بالتضحية بالعناق لأبي بردة بن نيار و غيره و ذكر ابن سبع في خصائصه وغيره أن اللہ تعالى أقطعه أرض الجنة يعطي منها ما شاء لمن يشاء

ترجمہ: اور آپ علیہ الصلوۃ و السلام کے سوال کرنے کے حکم کو مطلق رکھنے سے یہ نتیجہ لیا جاتا ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپ علیہ السلام کو اس بات کا اختیار عطا فرمایا ہے کہ آپ اللہ تبارک وتعالیٰ کے خزانوں میں سے جو چاہیں عطا فرمادیں، اسی وجہ سے ائمہ کرام نے آپ علیہ الصلوۃ و السلام کے خصائص میں یہ بات بھی شمار کی ہے کہ آپ علیہ الصلوۃ و السلام جس شخص کو جس حکم کے ساتھ چاہیں خاص فرمادیں جیسا کہ آپ علیہ الصلوۃ و السلام نے حضرت خزیمہ بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی گواہی کو دو گواہیوں کے برابر بنادیا، اسے بخاری نے روایت کیا ہے، اور جیسے آپ علیہ الصلوۃ و السلام کا خاص ام عطیہ کوفلاں خاندان والوں کے لیے نوحہ کی رخصت عطا فرمانا، اسے مسلم نے روایت کیاہے، امام نووی نے فرمایا: شارع علیہ الصلوۃ و السلام کو اختیارہے کہ عموم میں سے جوچاہیں خاص فرمادیں، اور ابو بردہ بن نیار کو بکری کے چھے مہینے کے بچے کی قربانی کی رخصت عطافرمانا (اسے بخاری نے روایت کیاہے) اوراس کے علاوہ بھی واقعات ہیں۔ اور ابن سبع وغیرہ نے آپ علیہ الصلوۃ و السلام کے خصائص میں ذکرفرمایاہے کہ اللہ تعالی نے جنت کی زمین آپ کی جاگیر کردی کہ اس میں سے جسے چاہیں، جتنی چاہیں عطا فرمائیں۔ (مرقاۃ المفاتیح، جلد 2، صفحہ723، مطبوعہ: بیروت)

حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی قدس سرہ القوی شرح مشکوٰۃ شریف میں اس حدیث کے نیچے فرماتے ہیں:

از اطلاق سوال کہ فرمود سل بخواہ وتخصیص نکرد بمطلوبی خاص معلوم میشود کہ کارہمہ بدست ہمت و کرامت اوست صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ہر چہ خواہد وہر کراخواہد باذن پروردگار خود بدہد فان من جودک الدنیا وضرتہاومن علومک علم اللوح والقلم

 ترجمہ: سوال کے متعلق مطلق فرمایا کہ:''سوال کر'' جس میں کسی مطلوب کی تخصیص نہ فرمائی، تواس سےمعلوم ہوا کہ تمام اختیارات آپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے دست ہمت و کرامت میں ہیں، جو چاہیں جس کو چاہیں اللہ تعالٰی کے اذن سے عطا کردیں، کیونکہ آپ کی عطا کا ایک حصہ دنیا و آخرت ہے اور آپ کے علوم کا ایک حصہ لوح وقلم کا علم۔ (صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ و سلم) (اشعۃ اللمعات، کتاب الصلاۃ، باب السجود و فضلہ، الفصل الاول، جلد 1، صفحہ199، کار خانہ محمدی، بمبئی)

الجوھر المنظم میں علامہ ابن حجر مکی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:

انہ (صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ و صحبہ و سلم) خلیفۃ اللہ الذی جعل خزائن کرمہ و موائد نعمہ طوع یدیہ و تحت ارادتہ یعطی منھما من یشاء و یمنع من یشاء۔

 ترجمہ: بے شک نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم اللہ عزوجل کے خلیفہ ہیں، اللہ تعالیٰ نے اپنے کرم کے خزانے اور اپنی نعمتوں کے خوان حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے دست قدرت کے فرمانبردار اور حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے زیر حکم و ارادہ و اختیار کر دئیے ہیں کہ جسے چاہیں عطا فرمائیں اور جسے چاہیں عطانہ فرمائیں۔(الجوھر المنظم فی زیارۃ القبر الشریف المکرم، صفحہ 80، مکتبۃ مدبولی، قاھرہ)

حافظے کی عطاکے حوالے سے صحیح بخاری میں ہے

عن أبي هريرة، قال: قلت: يا رسول اللہ، إني أسمع منك حديثا كثيرا أنساه قال: «ابسط رداءك» فبسطته، قال: فغرف بيديه، ثم قال: «ضمه» فضممته، فما نسيت شيئا بعده.

ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے، فرمایا: میں نے عرض کی: اے اللہ تعالی کے رسول!(صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ و سلم) میں آپ سے بہت ساری حدیثیں سنتاہوں، جنہیں بھول جاتاہوں، آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے ارشادفرمایا: "اپنی چادربچھاؤ" پس میں نے چادر بچھادی ، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی نے فرمایا: پس آپ صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ و سلم نے اپنے دونوں ہاتھوں سے لپ بھرکراس میں ڈال دیا۔ پھر فرمایا: اسے اپنے سینے سے لگالو، پس میں نے اسے سینے سے لگالیا،تواس کے بعدمیں کچھ بھی نہیں بھولا۔

شرعی احکام میں اختیارات کے متعلق بعض واقعات کامرقاۃ کی اوپرمذکورعبارت میں تذکرہ ہوا، مزیدمسلم شریف کی حدیثِ مبارکہ ہے

عن ابی ھریرۃ، قال: خطبنا رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ وسلم فقال: أيها الناس، قد فرض اللہ عليكم الحج فحجوا، فقال رجل: أكل عام يا رسول اللہ؟ فسكت، حتى قالها ثلاثا، فقال رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم لو قلت: نعم، لوجبت، و لما استطعتم 

ترجمہ: حضرت سیّدُنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، فرماتے ہیں ہمیں رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے خطبہ دیا ، اور فرمایا اے لوگو! اللہ تعالی نے تم پر حج فرض فرمایا ہے، پس حج کرو، تو ایک شخص نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ و سلم کیا ہر سال حج کرنا فرض ہے؟ آپ علیہ الصلوۃ و السلام خاموش رہے یہاں تک کہ اس نے تین بار یہی عرض کیا، پھر رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اگر میں ہاں کہہ دیتا تو ہر سال حج فرض ہوجاتا اور تم اس کی ادائیگی کی طاقت نہ رکھتے۔ (صحیح مسلم، جلد4، صفحہ 102، حدیث: 1337، مطبوعہ: ترکیا)

بہارِ شریعت میں ہے "حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم، اللہ عزوجل کے نائبِ مطلق ہیں، تمام جہان حضور (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) کے تحتِ تصرّف کر دیا گیا، جو چاہیں کریں، جسے جو چاہیں دیں، جس سے جو چاہیں واپس لیں، تمام جہان میں اُن کے حکم کا پھیرنے والا کوئی نہیں، تمام جہان اُن کا محکوم ہے اور وہ اپنے رب کے سوا کسی کے محکوم نہیں، تمام آدمیوں کے مالک ہیں، جو اُنھیں اپنا مالک نہ جانے حلاوتِ سنّت سے محروم رہے، تمام زمین اُن کی ملک ہے، تمام جنت اُن کی جاگیر ہے، ملکوت السمٰواتِ و الارض حضور (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) کے زیر فرمان، جنت و نار کی کنجیاں دستِ اقدس میں دیدی گئیں، رزق و خیر اور ہر قسم کی عطائیں حضور (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) ہی کے دربار سے تقسیم ہوتی ہیں، دنیا و آخرت حضور (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) کی عطا کا ایک حصہ ہے، احکامِ تشریعیہ حضور (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) کے قبضہ میں کر دیے گئے، کہ جس پر جو چاہیں حرام فرما دیں اور جس کے لیے جو چاہیں حلال کر دیں اور جو فرض چاہیں معاف فرما دیں۔" (بہارِ شریعت، جلد1، حصہ 1، صفحہ 79تا 85، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

نوٹ:مزید دلائل کے لیے اس موضوع سے متعلق علمائے اہلسنت کی کتب کا مطالعہ فرمائیں۔

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مولانا محمد سعید عطاری مدنی

فتوی نمبر: WAT-4203

تاریخ اجراء: 11ربیع الاول1447ھ/05ستمبر2025ء