نو مسلم اسلام پر مکمل عمل کیسے کرے؟

نو مسلم اسلام کے تمام قوانین پر عمل کیسے کرے گا ؟

دارالافتاء اھلسنت)دعوت اسلامی)

سوال

کیافرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلہ کےبارے میں کہ اگر اسلام قبول کرتے ہی اسلام کے تمام قانون نو مسلم   (New Muslimپر لاگو ہوں گے، تو ایک  نیو مسلم ان سب قوانین پر کیسے عمل کرسکے گا؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

دینِ اسلام ”دینِ فطرت“ ہے۔اِسے قبول کرنے کا تقاضا یہ ہے کہ انسان اِس دینِ حنیف کو مکمل طور پر تسلیم کرلے اور اس کے تمام احکام کے سامنے سرِ تسلیم خم کر دے، لہذا کلمہ پڑھ کر اسلام قبول کرنا درحقیقت اللہ تعالیٰ کی حاکمیتِ اعلیٰ کو تسلیم کرنے اور اُس کے نازل کردہ ضابطۂ حیات کو اپنی زندگی کے لیے منتخب کرنے کا عہد وپیمان ہے، چنانچہ جب غیر مسلم قبولِ اسلام کرتا ہے، تو اُسی لمحے وہ شرعی احکام کا پابند ٹھہرتا ہے اور اس پر اسلام کے تمام قوانین لاگو ہو جاتے ہیں۔

یہ بالکل ایسا ہی ہے کہ جب کوئی شخص کسی کمپنی میں ملازمت اختیار کرتا ہے تو وہ پہلے دن سے ہی کمپنی کی تمام پالیسیوں اور ضوابط کا پابند ہو جاتا ہے، چاہے اسے ابھی تمام تفصیلات معلوم نہ ہوں۔وہ یہ نہیں کہتا کہ میں صرف تنخواہ لوں گا لیکن ڈسپلن کے قوانین بعد میں سیکھوں گا، بلکہ اُس کا معاہدے پر دستخط کرنا ہی اس بات کا اقرار ہوتا ہے کہ وہ پورے نظام کو اصولی طور پر قبول کرتا ہے۔

 اسی طرح جب کوئی طالب علم یونیورسٹی میں داخلہ لیتا ہے تو وہ داخلے کے ساتھ ہی یونیورسٹی کے تمام تعلیمی قوانین کا پابند ہوجاتا ہے۔اِسی طرح کلمہ پڑھ کر اسلام قبول کرنا بھی ایک ایسا اقرار ہے، جس میں بندہ اللہ تعالیٰ کو اپنا حاکم اور اسلام کو اپنا دین مان کر اُسے مجموعی حیثیت کے ساتھ بلاتفریق وتخصیص قبول کرتا ہے۔

 اب پوچھے گئے سوال کی بنیادی شِق ” ایک  نیو مسلم اُن سب قوانین پر کیسے عمل کرسکے گا ؟“ کا جواب سمجھنے کے لیے دو اہم امور میں فرق کرنا نہایت ضروری ہے: (1) شرعی احکام کو تسلیم کرلینا، (2) شرعی احکام پر عمل کرنے کی عملی استطاعت اور تدریجی کیفیت۔

(1) شرعی احکام کو تسلیم کرلینا

 جب کوئی شخص کلمہ پڑھ کر دائرہ اسلام میں داخل ہوتا ہے تو گویا وہ عہد کرتا ہے کہ دینِ اسلام کے ہر حکم کو مانے گا، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اہلِ ایمان کو خطاب کرتے ہوئے بھی یہی ارشاد فرمایا:

﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ كَآفَّةً﴾

ترجمہ کنزالعرفان: اے ایمان والو!اسلام میں پورے پورے داخل ہوجاؤ۔﴿پ 02، البقرة: 208 اس آیت کی مراد یہ ہے کہ دینِ اسلام کو بحیثیتِ مجموعی قبول کیا جائے۔ اُس کے بعض احکام کوماننا اوربقیہ کو  نہ ماننا ہرگز قابلِ قبول نہیں ہے بلکہ حکمِ خداوندی یہ ہے  کہ لوگ ایمان کے تمام شعبوں اور اسلام کے جملہ احکام  کو تسلیم کریں اور ان پر شریعت کے تفصیلی احکام کے مطابق عمل کریں۔                                                                                                                                                                 

 یونہی دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا:

﴿وَ مَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّ لَا مُؤْمِنَةٍ اِذَا قَضَى اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗۤ اَمْرًا اَنْ یَّكُوْنَ لَهُمُ الْخِیَرَةُ مِنْ اَمْرِهِمْ﴾

ترجمہ کنزالعرفان: اور کسی مسلمان مرد اور عورت کیلئے یہ نہیں ہے کہ جب اللہ اور اس کا رسول کسی بات کا فیصلہ فرما دیں تو انہیں اپنے معاملے کا کچھ اختیار باقی رہے۔﴿پ 22، الأحزاب: 36

(2) احکام پر عمل کرنے کی عملی استطاعت اور تدریجی کیفیت۔

جہاں تک ان تمام احکام پر عمل کا تعلق ہے، جیسا کہ سوال کا بنیادی حصہ بھی یہی ہے کہ ” ایک  نیو مسلم ان سب قوانین پر کیسے عمل کرسکے گا“ تو یاد رکھیں کہ اسلام کا کمال یہ ہے کہ وہ انسانی فطرت کو مدنظر رکھتے ہوئے احکام میں تخفیف اور انسان کی کمزوری کی رعایت کرتا ہے، چنانچہ ارشاد الہی ہے:

﴿ یُرِیْدُ اللّٰهُ اَنْ یُّخَفِّفَ عَنْكُمْ وَ خُلِقَ الْاِنْسَانُ ضَعِیْفًا(۲۸)

ترجمہ کنزالعرفان: اللہ چاہتا ہے کہ تم پرآسانی کرے اور آدمی کمزور بنایا گیا ہے۔﴿پ 05، النساء: 28 لہٰذا نو مسلم سے متعلقہ کثیر احکام کا عملی نفاذ اُس کے علم اور استطاعت سے مشروط کیا گیا ہے۔ اِس کی وجہ یہی ہے کہ دینِ اسلام، دینِ رحمت ہے۔ یہ انسان کی فطرت اور اس کی استعداد کا پورا لحاظ رکھتا ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿ لَا یُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا﴾

ترجمہ کنزالعرفان: اللہ کسی جان پر اس کی طاقت کے برابر ہی بوجھ ڈالتا ہے۔﴿پ 03، البقرة: 286 مزید فرمایا:

﴿وَ مَا جَعَلَ عَلَیْكُمْ فِی الدِّیْنِ مِنْ حَرَجٍ ﴾

ترجمہ کنزالعرفان: اور تم پر دین میں کچھ تنگی نہ رکھی۔﴿پ 17، الحج: 78

 شریعتِ اسلامیہ ایک نومسلم سے ہرگز یہ توقع نہیں کرتی کہ وہ پہلے ہی دن تمام فرائض، سنتوں اور آداب کا جاننے والا اور اُن کا عامِل ہو جائے، بلکہ اس پر لازم ہوتا ہےکہ وہ فوری طور پر اسلام کی حقانیت مانے، اِس کے جملہ عقائد کو اجمالی طور پر درست اور برحق مانے پھر اس کی ضروری تفصیل سیکھنااور تفصیلی طور پر ماننا شروع کردے۔ اسی طرح قبولِ اسلام کے بعد  نماز جیسے اہم ترین فرض کو سیکھنے کی کوشش شروع کرے اور جیسے بھی ممکن ہو نماز ادا کرے اور اسی طرح بتدریج اسلام کے دیگر احکام کا علم حاصل کرتے ہوئے اپنی زندگی کو اسلام کے سانچے میں ڈھالتا رہے۔

اِس کلام سے معلوم ہوا کہ نو مسلم کے لیے تمام نافذ شدہ احکام پر عمل اُس صورت میں مشکل ہو کہ جب اُس سے اُن احکام کو کامل طور پر فی الفور طلب کیا گیا ہو، حالانکہ ایسا نہیں ہے۔اس کی بہت بڑی مثال یہ ہے کہ اسلام لانے کے بعد نومسلم کو جلدپیش آنے والا فرض عمل ”نماز“ ہے جس سے پہلے طہارت ضروری ہے۔ طہارت یعنی وضو یا وضو و غسل کا ضروری اسلامی طریقہ تومحض کسی سے ایک دو مرتبہ بتانے سے سیکھ جائے گا، جبکہ نماز کے اندر قراءت ایک اہم اور مشکل امر ہو گا، اس لئے دینِ اسلام نے یہاں پر نومسلم کے لیے آسانی رکھی، چنانچہ  ایک شخص نے نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہو کر عرض کی:

”إني لا أستطيع أن آخذ من القرآن شيئا ‌فعلمني ما يجزئني منه، قال: "قل: سبحان اللہ، والحمد للہ، ولا إله إلا اللہ، و اللہ أكبر“

ترجمہ: میں قرآن میں سے کچھ نہیں پڑھ سکتا، اس لیے آپ مجھے کوئی ایسی چیز سکھا دیجیے کہ جو اُس کے بدلے مجھے کفایت کرے، تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”تم «سبحان الله والحمد لله ولا إله إلا الله والله أكبر» کہا کرو“۔ (سنن ابی داود، جلد 1، صفحہ 220، مطبوعہ المکتبۃ العصریۃ)

یونہی مفتی امجد علی اعظمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے قراءت سے عاجزنومسلم شخص کے متعلق تفصیلی کلام لکھا، جس کا خلاصہ یہ ہے: ”نماز میں قرآن مجید کی تلاوت اس کی اصل عربی زبان ہی میں کرنا فرض ہے، کیونکہ قرآن عربی میں نازل ہوا ہے اور کسی دوسری زبان میں اس کا ترجمہ پڑھنا قرآن کی تلاوت شمار نہیں ہوگا۔ لہٰذا، جو شخص عربی پڑھنے پر قادر ہو، اگر وہ ترجمہ پڑھے گا تو اس کی نماز نہیں ہوگی، البتہ اگر کوئی شخص بالکل نیا مسلمان ہوا ہو یا کسی اور وجہ سے فی الحال قرآن مجید کا عربی متن پڑھنے پر قادر نہ ہو، تو ایسے شخص پر عارضی طور پر قراءت فرض نہیں ہوتی۔اس صورتِ حال میں، اس کے لیے نماز میں خاموش کھڑے رہنے سے بہتر ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کا ذکر جیسے تسبیح و تہلیل کر لے۔چونکہ قرآن کا ترجمہ بھی اللہ کے کلام کا مفہوم اور ایک طرح کا ذکر ہی ہے، لہٰذا ایسے مجبور شخص کو بطورِ ذکر اس کا ترجمہ پڑھنے کی اجازت ہے، لیکن یہ اجازت اس بنیاد پر نہیں کہ اس نے قرآن پڑھا، بلکہ اس بنیاد پر ہے کہ وہ قراءت سے عاجز ہے۔

فقیہ اعظم ہند مفتی شریف الحق امجدی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے اس عبارت پر مزید وضاحت فرمائی ہے کہ یہ اجازت صرف ایک عارضی صورتحال کے لیے ہے۔ایسے شخص پر لازم ہے کہ وہ دن رات کوشش کر کے جلد از جلد اتنی قرآنی آیات یاد کر لے جتنی نماز میں پڑھنا ضروری ہیں (یعنی سورۂ فاتحہ اور کوئی چھوٹی سورت)۔ یہ کوئی مشکل کام نہیں اور تھوڑی سی توجہ سے چند گھنٹوں میں سیکھا جا سکتا ہے۔“ (ملخص از فتاویٰ امجدیہ وحاشیہ، جلد1، صفحہ96، مطبوعہ مکتبہ رضویہ، کراچی)

نومسلم کو قضاء نمازوں میں تخفیف(آسانی):

ایک نومسلم شخص کہ جو دار الحرب میں ایمان لایا اور اُسے وہاں فرضیت ِنماز کا علم ہی نہ ہوا، پھر ایک عرصے بعد اُس کو کسی نے بتایا کہ نماز ادا کرنا بھی فرض ہوتا ہے، تو فقہاء نے واضح لکھا کہ اُس نومسلم پر اُس گزرے ہوئے حالتِ اسلام کے زمانے کی قضا نمازیں ادا کرنا لازم نہیں، حالانکہ دار الاسلام میں رہنے والے عام مسلمان پر یوں نماز چھوڑنے کی صورت میں قضا لازم ہونا تھی، مگر یہ آسانی خاص دار الحرب میں قبولِ اسلام کرنے والے نومسلم کے لیے ہے۔”الفتاوی الھندیۃ“ میں ہے:

”لا على مسلم ‌أسلم في ‌دار ‌الحرب ولم يصل مدة لجهله بوجوبها“

ترجمہ: اُس مسلمان پر نمازوں کی قضا لازم نہیں جو دارالحرب میں اسلام لایا اور نماز کے واجب ہونے سے لاعلمی کی بنا پر ایک مدت تک اس نے نماز ادا نہیں کی۔ (الفتاوى الھندیۃ، جلد 01، صفحہ 121، مطبوعہ کوئٹہ )

نومسلم کو قضاء روزوں کی رخصت:

یونہی ایسا نومسلم شخص کہ اُسے دارالحرب میں رہتے ہوئے روزے فرض ہونے کی خبر ہی نہ ہوئی اور کئی سال گزر گئے تو علم ہونے کی صورت میں گزرے ہوئے روزوں کی قضا بھی لازم نہیں ہے، نیز یہ حکم قیاساً واستحساناً دونوں طرح ہے، چنانچہ اِسی کتاب میں ہے:

”حربي ‌أسلم في ‌دار ‌الحرب ولم يعلم بالشرائع من الصوم والصلاة ونحوهما ثم دخل دار الإسلام أو مات لم يكن عليه قضاء الصوم والصلاة قياسا واستحسانا“

ترجمہ: کوئی حربی شخص دارالحرب میں اسلام لائے اور وہ روزہ، نماز وغیرہ جیسے شرعی احکام سے واقف نہ ہو، پھر وہ دارالاسلام میں داخل ہو یا وہیں وفات پا جائے تو قیاس اور استحسان، دونوں کے اعتبار سے اس پر روزوں اور نمازوں کی قضا لازم نہیں ہوگی۔(الفتاوى الھندیۃ، جلد 01، صفحہ 124، مطبوعہ مکتبۃ رشیدیۃ)

زکوٰۃ میں رخصت:

یہی معاملہ زکاۃ کا بھی ہے، چنانچہ اِسی کتاب میں ہے:

”إذا أسلم الكافر في دار الحرب، وأقام سنين هناك۔۔۔هل تجب عليه الزكاة حتى يفتى بالدفع إن كان علم بالوجوب وجبت عليه ويفتى بالدفع، وإن لم يعلم لا تجب عليه، ولا يفتى بالدفع“

ترجمہ: جب کوئی کافر دارالحرب میں مسلمان ہو اور وہیں کئی سال تک قیام کرے تو اس پر زکوٰۃ کے وجوب اور ادائیگی کا حکم یہ ہے کہ اگر اسے زکوٰۃ کے واجب ہونے کا علم تھا تو اس پر واجب ہوگی اور ادائیگی کا فتویٰ بھی دیا جائے گا، اور اگر اسے علم نہیں تھا تو اس پر زکوٰۃ واجب نہیں ہوگی اور نہ ہی ادائیگی کا فتویٰ دیا جائے گا۔ (الفتاوى الھندیۃ، جلد 01، صفحہ 171، مطبوعہ مکتبۃ رشیدیۃ)

عدمِ علم کے سبب حج فرض نہ ہونا:

یونہی نومسلم دار الحرب میں کئی سال گزار دے اور کروڑوں اربوں کا مالک ہو، مگر اُس کو حج کی فرضیت کا علم نہ ہوا ہو، جس کے سبب اُس نے کئی سال حج نہ کیے ہوں، تو شرعی نقطہ نظر سے اُس پر حج فرض ہی نہیں کہلائے گا، کیونکہ علم نہیں ہوا، چنانچہ اِسی میں ہے:

”(ومنها العلم بكون الحج فرضا) والعلم المذكور ‌يثبت ‌لمن ‌في ‌دار ‌الإسلام بمجرد الوجود فيها سواء علم بالفرضية أو لم يعلم، ولا فرق في ذلك بين أن يكون نشأ على الإسلام أو لا فيكون علما حكميا، ولمن في دار الحرب بإخبار رجلين أو رجل وامرأتين“

ترجمہ: حج کی فرضیت کی شرائط میں سے ایک حج کے فرض ہونے کا علم بھی ہے۔یہ علم دارالاسلام میں رہنے والے شخص کے لیے محض وہاں موجودگی سے ہی ثابت ہو جاتا ہے، خواہ اسے اس کی فرضیت کا علم ہو یا نہ ہو۔اس معاملے میں اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اس نے اسلام پر پرورش پائی ہے یا نہیں، لہٰذا یہ ایک ”علمِ حُکمی “ہے۔ جبکہ دارالحرب میں رہنے والے کے لیے یہی علم دو مردوں، یا ایک مرد اور دو عورتوں کے خبر دینے سے ثابت ہوتا ہے۔(الفتاوى الھندیۃ، جلد 01، صفحہ 218، مطبوعہ کوئٹہ )

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: Fsd-9529

تاریخ اجراء:  29 ربیع الاول1447ھ/ 23  ستمبر 2025ء