ولی میں اللّٰہ کے حلول کا عقیدہ رکھنا کیسا؟

کسی ولی میں اللہ تعالی کے حلول کئے ہونے کا عقیدہ رکھنے کا حکم

دار الافتاء اہلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

جو شخص اللہ تعالی کے نیک بندوں میں سے کسی ولی کے متعلق واقعی یہ عقیدہ رکھتا ہو کہ اس میں اللہ نے حلول کیا ہوا ہے (معاذ اللہ)، تو شریعتِ مطہرہ میں اس شخص پر کیا حکمِ شرع لگے گا؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

اللہ عزوجل کسی شے میں حلول فرمانے سے پاک ومنزہ ہے، کوئی شخص یہ عقیدہ رکھے کہ ”اللہ عزوجل نے کسی ولی وغیرہ میں حلول کیا ہوا ہے (معاذ اللہ)“تو وہ کافر ہے۔

الاسماء والصفات للبیہقی میں ہے

ربنا عن الحلول و المماسۃ علواً کبیراً

ترجمہ: ہمارا رب حلول و مس سے بہت بلند ہے۔ (الاسماء و الصفات للبیہقی، جلد 2، صفحہ 307، مکتبۃ السوادي، جدۃ)

امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ تعالی علیہ تحریرفرماتے ہیں:

و قال الإمام أقضى القضاة أبو الحسن الماوردي صاحب الحاوي الكبير في مناظرة ناظرها لبعض النصارى في ذلك القائل بالحلول أو الاتحاد: ليس من المسلمين بالشريعة بل في الظاهر و التسمية۔۔۔ و قال القاضي عياض في الشفا ما معناه: أجمع المسلمون على كفر أصحاب الحلول ومن ادعى حلول الباري سبحانه في أحد الأشخاص كقول بعض المتصوفة و الباطنية و النصارى و القرامطة

یعنی: امام قاضی القضاۃ ابو الحسن ماوردی جو کتاب الحاوی الکبیر کے مصنف ہیں، انہوں نے کچھ نصرانیوں سے مناظرہ کیا تھا، اُس مناظرہ میں انہوں نے فرمایا تھا: جو اس عقیدہ کا قائل ہو کہ اللہ پاک کی ذات کسی مخلوق کی ذات میں حلول کئے ہوئے ہے یا اس کے ساتھ متحد ہوگئی ہے،تو ایسا شخص شریعت میں مسلمان نہیں، بلکہ وہ صرف نام کا اور بظاہر مسلمان ہے۔۔۔ اور امام قاضی عیاض مالکی رحمۃ اللہ تعالی علیہ نےشفا شریف میں لکھا، جس کا خلاصہ یہ ہے: مسلمانوں کا اس پر اجماع ہے کہ جو حلول کا قائل ہو اور اس بات کا دعوی کرے کہ رب سبحانہ وتعالی کی ذات  پاک کسی شخص میں حلول کئے ہوئے ہے، وہ شخص کافر ہے جیساکہ بعض بناوٹی صوفی اور فرقۂ باطنیہ، نصاری اور قرامطہ کاقول ہے۔ (الحاوی للفتاوی للسیوطی، جلد 2، صفحہ 159، دار الفکر، بیروت)

امامِ اہل سنت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ”وحدتِ وجود حق ہے اور حلول واتحاد کہ آج کل کے بعض متصوفہ (بناوٹی صوفی) بکتے ہیں صریح کفر ہے۔“ (فتاوی رضویہ، جلد 29، صفحہ 616، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

فتاوی شارح بخاری میں سوال ہوا کہ زید کہتا ہے میرا پیر ہی میرے لئے خدا ہے اور خدا میرے پیر سے جدا نہیں بلکہ خدا میرے پیر میں سرایت کر گیا ہے، اس جملہ کے قائل کے متعلق کیا حکم ہوگا؟ اس سوال کے جواب میں شارح بخاری مفتی شریف الحق امجدی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: ”زید اپنے اس قول کی وجہ سے کافرومشرک و مرتد ہوگیا۔ اس کے سارے اعمالِ حسنہ اکارت (برباد) ہوگئے، اگر بیوی والا ہے تو اس کی بیوی نکاح سے نکل گئی۔“ (فتاوی شارح بخاری، جلد 1، صفحہ 247، مکتبہ برکات المدینہ، کراچی)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مولانا محمد سعید عطاری مدنی

فتوی نمبر: WAT-4441

تاریخ اجراء: 23 جمادی الاولٰی 1447ھ / 15 نومبر 2025ء