دار الافتاء اہلسنت (دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ میں کہ اللہ تبارک و تعالیٰ قادرِ مطلق ہے، تو کیا اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے جیسا ایک اور خدا بنا سکتا ہے؟
جواب
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
بیشک اللہ تبارک وتعالیٰ قادرِ مطلق ہے یعنی جو چاہے کرے، جو نہ چاہے نہ کرے، اس سے کوئی پوچھنے والا نہیں۔ چنانچہ قرآنِ مجید میں ہے
لَا یُسئَل عَمَّا یَفْعَلُ وَ هُمْ یُسْئَلُوْنَ
ترجمۂ کنز الایمان: اُس سے نہیں پوچھا جاتا جو وہ کرے اور اُن سب (مخلوق) سے سوال ہوگا۔(سورۃ الانبیاء، آیت:23)
اسی طرح ایک دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا:
اِنَّمَاۤ اَمْرُهٗۤ اِذَاۤ اَرَادَ شَیْـئًا اَنْ یَّقُوْلَ لَهٗ كُنْ فَیَكُوْنُ
ترجمۂ کنز الایمان: اس کا کام تو یہی ہے کہ جب کسی چیز کو چاہے تو اس سے فرمائے "ہوجا" وہ فوراً ہوجاتی ہے۔ (سورۂ یس، آیت: 82)
لیکن یہ خیال رہے کہ !خداکامعنی ہی یہ ہے کہ: "جو خود ہو، کسی کے بنائے سے نہ ہو۔" تو جسے بنایاجائے گا،وہ خدا نہیں ہوگا، اس لیے خدا کو بنایا نہیں جاسکتا۔
نیز خداوہ ہوتا ہے کہ: "جو ہمیشہ سے ہو اور ہمیشہ رہے۔ "اور جسے بنایا جائے گا،وہ ہمیشہ سے نہیں ہوگا، اس لیے وہ خدانہیں ہوسکتا۔
نیزدوسرے خداکاہونا،اللہ تعالی کی وحدانیت کے خلاف ہے، لہذادوسراخداہرگزنہیں ہوسکتا۔ قرآن مجیدمیں واضح طور پر فرما دیا گیا ہے:
قل ھواللّٰہ احد
ترجمہ کنز الایمان: تم فرماؤ!وہ اللہ ہے،وہ ایک ہے۔
اس سے ثابت ہواکہ اس میں اللہ تعالی کی قدرت کانقص نہیں ہے بلکہ دوسراخداہوناہی ممکن نہیں ہے ،اس لیے دوسراخدانہیں ہوسکتا۔
واجب و محالِ عقلی کا تعلق قدرت و ارادت سے نہیں ہے، واجب اور محالِ عقلی کے تحتِ قدرت نہ ہونے کی وجہ کے متعلق المعتقد والمنتقد میں ہے
وفی الکنز: خرج الواجب والمستحیل فلا یتعلقان ای القدرۃ والارادۃ بھما لأنھما صفتان مؤثرانِ ومن لازم الأثر وجودہ بعد عدم فما لا یقبل العدم اصلاً کالواجب لا یکون اثراً لھما لئلا یلزم تحصیل الحاصل وما لا یقبل الوجود کالمستحیل لا یمکن أن یتأثر بھما ، اذ لو امکن لزم قلب الحقیقۃ لصیرورتہٖ جائزاً وکلاھما محال
ترجمہ: اور کنز الفوائد میں ہے: واجب اور محال خارج ہو گئے، یعنی قدرت اور ارادت ( واجب و محال ) کے متعلق نہیں ہوتے، کیوں کہ قدرت و ارادت دونوں صفاتِ مؤثرہ ہیں ، اور اثر کے لوازمات میں سے ہے کہ عدم کے بعد وجود ہوجائے ، تو جو اصلاً عدم کو قبول ہی نہیں کرتا جیسے واجب تو قدرت و ارادہ کے لئے واجب پر کوئی اثر نہیں ہوگا ، تاکہ تحصیلِ حاصل (حاصل چیز کو دوبارہ حاصل کرنا ، یا وجودی چیز کو دوبارہ وجود میں لانا) لازم نہ آئے، اور جو وجود ہی قبول نہیں کرتا جیسے محال تو یہ ممکن ہی نہیں کہ محال قدرت و ارادت کی وجہ سے کوئی اثر پائے، کیوں کہ اگر ممکن ہوا تو حقیقت کو بدلنا لازم آئے گا، محال کے جائز الوجود میں بدل جانے کی وجہ سے( جبکہ محال ہوتا ہی وہ ہے جس کا وجود جائز نہ ہو)، اور یہ دونوں محال ہیں۔ (المعتقد المنتقد، صفحہ 74، النوریہ الرضویہ، لاہور)
بہارِ شریعت میں ہے ”جو چیز محال ہے اللہ عزوجل اس سے پاک ہے کہ اس کی قدرت اُسے شامل ہو کہ محال اُسے کہتے ہیں جو موجود نہ ہوسکے، اور جب مقدور ہوگا تو موجود ہوسکے گا، پھر محال نہ رہا، اسے یوں سمجھو کہ دوسرا خدا محال ہے یعنی نہیں ہوسکتا، تو یہ اگر زیرِ قدرت ہو تو موجود ہو سکے گا تو محال نہ رہا، اور اس کو محال نہ ماننا وحدانیت کا انکار ہے، یوہیں فنائے باری تعالیٰ محال ہے، اگر تحتِ قدرت ہو تو ممکن ہوگی، اور جس کی فنا ممکن ہو وہ خدا نہیں۔ تو ثابت ہوا کہ محال پر قدرت ماننا اللہ (عزوجل) کی الوہیت سے ہی انکار ہے۔ (بہارِ شریعت، جلد 1، حصہ 1، صفحہ 6، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
نیز یہ خیال رہے کہ! واجب و محالِ عقلی کے صفتِ قدرت و ارادت کے ساتھ تعلق نہ ہونے سے اللہ تبارک وتعالیٰ کی قدرت و ارادت میں کسی قسم کا کوئی نقص لازم نہیں آئے گا، کیوں کہ واجب و محالِ عقلی میں یہ صلاحیت ہی نہیں کہ وہ قدرت و ارادت کے متعلق ہوجائیں۔
چنانچہ المعتقد والمنتقد ہی میں ہے
لا قصور اصلاً فی عدمِ تعلقھما بھما بل القصور فی التعلق۔۔۔ العجز انما یکون لو کان القصور من جانب القدرۃ أما اذا کان لعدم صحۃ تعلقھا فلا یتوھم عاقل أن ذٰلک عجز
یعنی: واجب اورمحال کےصفتِ قدرت و ارادہ کے ساتھ تعلق نہ ہونے میں اصلاً کوئی قصور لازم نہیں آتا، بلکہ قصور تو تعلق میں ہے، (نیز) عجز اس صورت میں لازم آئے گا جب قصور قدرت کی جانب سے ہو، بہرحال جب قصور واجب و محال کے قدرت و ارادہ کے ساتھ تعلق صحیح نہ ہونے میں ہو تو کوئی بھی عاقل یہ وہم بھی نہیں کرے گا کہ یہ عجز ہے۔ (المعتقد المنتقد، صفحہ 74، النوریہ الرضویہ، لاہور)
اعلیٰ حضرت امامِ اہل سنت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن فتاویٰ رضویہ میں ارشاد فرماتے ہیں: "محال کےمعنیٰ ہی یہ ہیں کہ کسی طرح موجود نہ ہوسکے، اور مقدور وہ کہ قادر چاہے تو موجود ہوجائے ،پھر دونوں کیونکر جمع ہوسکتے ہیں، اور اس کے سبب یہ سمجھنا کہ کوئی شے قدرت سے خارج رہ گئی محض جہالت۔" (فتاویٰ رضویہ، جلد 15، صفحہ 322، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مولانا محمد سعید عطاری مدنی
فتوی نمبر: WAT-4408
تاریخ اجراء: 14 جمادی الاولٰی 1447ھ / 06 نومبر 2025ء